محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


پردے کے پیچھے کیا ہے؟

یہ تصویر تحفظ ناموسِ رسالتﷺ کانفرنس کی ہے جس میں حضرت مفتی محمودؒ کے بیٹے مولانا فضل الرحمن صاحب شرکاء سے مخاطب دکھائی دے رہے ہیں، تحفظ ختم نبوتﷺکانفرنس کا آغاز سرکاری بنگلہ چھننے کے بعد ہوا، اس سے قبل اسلام زندہ باد کانفرنس کے نام سے لوگوں کو جمع کر کے اظہار خیالات فرمائے جاتے تھے۔ دیوبندیوں کی بڑی تعداد مولانا فضل الرحمن کا شمار اکابرین میں کرتی ہے، اور ان کی ہر بات کو پتھر پر لکیر سمجھا جاتا ہے،دلیل نہیں مانگی جاتی، مولانا صاحب اگر فرما دیں کہ اس بار گدھی کے بجائے گدھے کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو گا تو بھی اس کے پیروکار بغیر کوئی سوال اٹھائے مان جائیں گے، بلکہ اسے مولانا صاحب کی کرامت سمجھا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمن کو لاکھوں جید علماء کا استاد کہا جاتا ہے، حالانکہ مولانا صاحب نے علمی میدان میں اپنے علم کے جوہر کبھی نہیں دکھائے، صرف مفتی محمودؒ کی اولاد ہونے کی نسبت سے عوام نے عزت بخشی جس کا فائدہ اٹھا کر مولانا صاحب پارٹی کے قائد بھی بنے رہے اور استادالعلماء بھی۔
مولانا فضل الرحمن کئی حکومتوں کے اتحادی رہ چکے ہیں، جب بھی جس حکومت کے اتحادی بنے ان کے ہر جائز و ناجائز عمل کو درست ثابت کرتے ہوئے نظر آئے۔
ماضی میں الیکشن کمپیئن میں اور دیگر نجی محفلوں میں اس بات کو عام کیا جاتا کہ پاکستان کے حکمران اسلام دشمن ہیں مدارس کے دشمن ہیں، اگر آپ نے انہیں ووٹ دیے، یا ہمیں ووٹ نہ دیے اسمبلی نہ پہنچایا تو حکمران طبقہ مدارس کے خلاف کھل کر کام کرے گا اور اسے روکنے والا کوئی نہ ہو گا، جب تک ہماری جماعت حکومت کا حصہ رہے گی مدارس اور مساجد محفوظ رہینگے۔ 
عوام کے دلوں میں یہ خدشات پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سے متعلق بھی ڈالے جاتے تھے، مگر عام انتخابات2018میں بدترین شکست کے بعد پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ کو صالحین کی جماعت ثابت کرنے میں قائد جمیعت اور ان کے پیروکاروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب اقتدار نہ ملا تو وہ سب ٹھیک ہو گے اور موجودہ حکومت پر قادیانیت نواز ہونے کے الزام عائد کرنا شروع کر دیے۔

یہاں ایک بات آپ کو یاد دلاتا چلوں، 2018کے انتخابات سے قبل جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں حامدمیر کے ایک سوال کے جواب میں قائد جمیعت نے فرمایا تھا، ہم پی ٹی آئ کے ساتھ حکومت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

یعنی فتوے بازی محض اقتدار کے حصول کے لیے کی جاتی ہے، جیسا کہ پہلے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے خلاف باتیں کی جاتیں اور ان میں سے جو حکومت میں ہوتی اس کی پوجا کی جاتی، اب چونکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزارتوں بنگلوں اور مفت کی لسی تک رسائی نہیں تو قادیانیت نواز ہونے جیسے الزام لگا کر عوام کو مشتعل کرنے کی گھٹیا سازش شروع کر دی گی ہے۔
آئے روز کسی نے کسی مسلمان پر قادیانیت کا الزام عائد کر کے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ 
اور شرمناک بات یہ ہے کہ اپنی سیاست کے لیے دینی مدارس کے اداروں تک کو استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کل ہونے والی کانفرنس میں معصوم بچوں کو میڈیا نے بھی دکھایا، حفظ اور ناظرہ کی کلاسز والے 7سےچودہ پندرہ سال تک کے بچوں کو بھی زبردستی اپنے سیاسی جلسوں میں لایا گیا۔
ماضی میں جن دو بڑی جماعتوں کو اسلام دشمن ڈکلیئر کیا جاتا تھا، آج انہی کے پرچموں کے سائے تلے تحفظ ناموس رسالتﷺ کے نام سے جلسے کر کے افواج پاکستان اور حکومت پر سنگین الزامات عائد کیئے جاتے ہیں۔ معصوم بچوں کو بغیر والدین کی اجازت کے سیاسی جلسوں میں لا کر ملکی سکیورٹی اداروں کے خلاف ان کے دل میں نفرت پیدا کرنا کون سے اسلام کی خدمت ہے؟

ان لوگوں سے صرف سیاسی اختلاف رکھو تو گالم گلوچ سے ہوتے ہوئے کفر تک کے فتوے لگا دیتے ہیں، کل تک جب ہم صرف ایک بات پر اختلاف رکھتے تھے کہ مولانا فضل الرحمن سزا یافتہ چوروں کا دفاع کرتے ہیں اس لیے ہمارا ان سے اختلاف ہے تو ہمیں گستاخ العلماء کہا جاتا، بےدین اور دین بیزار کہا جاتا، ان کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح ہم مولانا کی پوجا کرتے ہیں سبھی ایسے ہی کریں مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ سب تمھاری راہ پر چل پڑیں۔
مگر اقتدار سے دور ایک سال کا وقفہ دیکھ  کر اپنے مستقبل کو تاریک دیکھتے ہوئے بجائے دلائل کے دھمکیوں اور قادیانیت نوازی کا شور شرابہ شروع کر دیا۔

اپوزیشن جماعتوں اور بالخصوص جمیعت علماء اسلام(ف) کی طرف سے ریاستی اداروں اور حکومتی عہدےداران سمیت حکومت کے حمایتی لوگوں پر جس انداز سے کفر اور اسلام دشمنی کے فتوے لگائے جا رہے ہیں اگر ان شرپسندوں کے خلاف ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال ایک بار پھر ملاں فضل اللہ کے طرز پر نظر آئے گی۔ مذہب اور اسلام کا پتہ کھیل کر یہ لوگ عام عوام کو اشتعال دلانے میں سرگرم ہیں جو کسی بھی صورت ملک کے حق میں بہتر نہیں ہے۔
ایک وہ بھی وقت تھا جب تحریک طالبان پاکستان کا لٹیچر جمعے کو مساجد کے باہر تقسیم کیا جاتا تھا، جس پر فوجی جرنیلوں کو مردار فوجی لکھا جاتا، فوج کے خلاف لڑنے کو جہاد کہا جاتا۔ آج وہی کام مذہب کا پتہ کھیل کر فضل الرحمن نے شروع کر رکھا ہے۔

پھر صرف سیاسی اختلاف کی بنیاد پر علماء کا گستاخ کہا جاتا ہے کفر کے فتوے لگا دیے جاتے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ ہم باہر نہیں جاتے اندر کی بات کرتے ہیں، سابق خطیب لال مسجد مولانا عبدالعزیز صاحب حفظہ اللہ کا موقف ہے جمہوریت کفریہ نظام ہے، اس نظام کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کا بننا ممکن نہیں۔
جبکہ فضل الرحمن کہتے ہیں ہم جمہوریت کے لیے نکلیں گے اور اسلام کا نظام لائیں گے، وہی لوگ مولانا عبدالعزیز صاحب کی بات پر واہ واہ کرتے ہیں، وہی فضل الرحمن کی اس کے مخالف بیانیے پر واہ واہ کرتے ہیں۔ کیا یہ دہری منافقت نہیں، ہم سیاسی اختلاف رکھیں تو گستاخ کافر مردود اور تم کبھی ایک کو ٹھیک تو کبھی دوسرے کو ٹھیک کہہ کر بھی مومن؟ کہتے ہیں ہم سب علماء کو سروں کا تاج سمجھتے ہیں ہمارے لیے سب قابل احترام۔
عزت احترام اپنی جگہ پہلے طے تو کر لیجیئے آپ کا نظریہ کیا ہے؟ صرف اس لیے ان سے اختلاف نہیں رکھتے کہ تمھاری فیلڈ بھی وہی ہے؟ 
اور پھر جس حقارت سے جس نفرت کا اظہار مخالفین پر JUIوالے کرتے ہیں یا دیگر ایسے لوگ جو خود کو مذہبی، اسلام پسند کہلواتے ہیں، عصری تعلیم یافتہ لوگوں سے نفرت کرتے ہیں، انکے کے لیے عرض ہے اپنے مدرسے کے مہتمم صاحب سے دو تین ماہ کا وہ ریکارڈ چیک کریں، جس میں لوگوں نے تعاون کیا آپ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے، یہ وہی پینٹ شرٹ والے کلین شیو لوگ ہونگے جن پر آپ کفر کے فتوے لگاتے نہیں تھکتے۔

بہتر ہے اپنا قبلہ درست کریں سیاست ایک بار نہیں ہزار بار کریں بار بار کریں مگر اسلام اور اسلام کے حساس پہلوؤں کو سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں، اقتدار کی ہوس کے لیے مسلمانوں پر قادیانیت کے فتوے لگانے سے باز رہیں، مدارس کے نام پر عام عوام میں اداروں کے مخالف سنسنی پھیلانا بند کریں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پردے کے پیچھے کیا ہے؟
تو جان لیجیئے صرف اقتدار کی ہوس لالچ فراڈ دھوکہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]