محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

علامہ حقنواز جھنگوی شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع جھنگ سے تھا، 1985میں جھنگوی شہید نے انجمن سپاہ صحابہ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد عوام الناس کو اہل تشیع عقائد سے آگاہ کرنا اور پاکستان کی پارلیمنٹ سے اہل تشیعوں کو مسلمانوں سے الگ مذہب ڈکلیئر کروانا تھا۔ انہوں نے پانچ سال تک اس تنظیم کی قیادت کی اس دوران انہیں ریاست کی طرف سے اشتعال انگیزی پھیلانے کے جرم میں بدترین اذیتیں پہنچائی گئیں، قید و پابند کیا گیا ڈرایا دھمکایا گیا، مگر وہ شخص اپنے مشن سے ایک لمحے کے لیے بھی پیچھے نہ ہٹا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اور پاکستان میں اس دور میں اور اس سے قبل عالم دین صرف جھنگوی ہی تھے اور کوئی نہ تھا؟ اگر تھے تو وہ کیوں خاموش رہے۔ اگر باقی کوئی نہ اٹھا تو جھنگوی کو ضرورت ہی کیا تھی انتشار پھیلانے کی جس کی وجہ سے آج تک ہزاروں کارکنان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حقنواز جھنگوی کی اہل تشیعوں کے خلاف تحریک سے قبل سنی شیعہ میں باہمی محبت و بھائ چارہ تھا جسے انجمن سپاہ صحابہ نے دشمنی میں بدل دیا؟

پہلے اوپر والے سوال کا جواب نکالتے ہیں۔ شیعہ کے عقائد پر ان سے قبل کے مفتیان اکرام نے فتوے دیے جو صرف کتابوں تک محدود رہے یا پھر علماءاکرام کی سینوں میں راز بن کر چھپے رہے عام عوام کو ان کی کوئی معلومات نہ تھی۔ اور اس مسئلے کو اٹھانے کے لیے بھی بڑے جگر کی ضرورت تھی چونکہ اس تحریک کا آغاز کرنے سے پہلے حقنواز کو بھی موت کے صفحے پر سائن کرنا پڑا، اسی جگہ میں دوسرے سوال کا جواب بھی ایڈ کر دیتا ہوں۔ انجمن سپاہ صحابہ سے پہلے سنی شیعہ کے درمیان محبت تھی بھی تو غلط فہمی کی بنا پر، اور آخر یہ سب حقنواز کو ہی کیوں کرنا پڑا کسی اور نے اس تحریک کا آغاز کیوں نہ کیا۔


تو جناب عالی یہ راز فاش تو ہونا ہی تھا حقنواز نہ کرتے تو اللہ کسی اور کی زبان سے کروا دیتا۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے شیعہ سنی تنازعہ حقنواز نے کھڑا کیا جبکہ تاریخ چیخ چیخ کر پتاتی ہے حقنواز نے ری ایکشن دیا ہے۔ اصل فساد پرانا چلتا آ رہا ہے، اہل تشیعوں کے معتبر مصنف اپنی کتابوں میں فرقہ واریت کا اظہار یوں کر چکے ہیں کہ امام غائب امام مہدی جب ظاہر ہوں گے تو سب سے پہلے سنیوں کا  قتل عام کریں۔ جن میں باقرمجلسی سرفہرست ہیں اور ان کی کتابوں کی تائید امام خمینی نے بھی کی ہے۔ جی ہاں وہ امام خمینی جسے آج کے زمانے میں اسلامی انقلاب کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ جس نے ایران کی سرزمین پر خون کے دریا بہائے، دنیا بھر اور بالخصوص عراق،شام،لیبیا کے موجودہ حالات بھی خمینی کے وژن کا حصہ ہیں۔ 

اہل تشیع عقائد کے مطابق وحی کا نزول بارہ اماموں پر بھی ہوتا ہے۔ خلفاء راشدین کی خلافت کو برحق نہیں مانا جاتا بلکہ تین خلفاء کے بارے میں کہا جاتا ہے انہوں نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا حق چھینا۔ اور حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو یزید کی وجہ سے اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ اہل تشیع عقائد میں گھوڑے کی پوجا کی جاتی ہے۔ اہل تشیع کا کلمہ مختلف اذان مختلف نماز کے اوقات اور نماز مختلف نماز میں صحابہ اور ازواج مطہرات کو گالی دینا بھی درست بلکہ نماز کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

حقنواز جھنگوی نے ان کے عقائد کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کیا،،،

دو مختلف عقائد کو ایک دکھانے کی کوشش کو ناکام بنایا۔

میں آپ کو آسان مثال دیتا ہوں، قائداعظم محمد علی جناح ؒ  نے پاکستان کو ہندوستان سے الگ بنانے میں اولین پوائنٹ دو قومی نظریہ رکھا، کہ مسلم اور ہندو دو الگ قومیں ہیں ان کا رہن سہن کفن دفن شادی بیاہ الگ الگ ہیں ان کو الگ ہی شناخت دی جائے۔ اور اسی طرح حقنواز نے بھی دو مختلف نظریوں کی نشاندہی کروائ کہ انکے عقائد معاملات مختلف ہیں ان کو الگ شناخت دی جائے۔


ذرا سوچیئے!!! اگر حقنواز جھنگوی ان عقائد سے پردہ نہ اٹھاتے  یہ سنسنی نہ پھیلاتے تو ہم آج کہاں ہوتے علماء کو تو حقیقت معلوم ہوتی مگر مجھ جیسے سادہ ان پڑھ لوگ کس کو فالو کرتے؟ دنیا کا اصول ہے جو چیز ڈسکس ہونے لگ جائے اس کی معلومات ہر خاص و عام تک پہنچتی ہے۔ حقنواز نے ماریں کھا کر قیدخانوں میں رہ کر اذیتیں برداشت کر کے میری پیدائش سے پہلے جام شہادت نوش کر کے محمدﷺ کے دین میں ملاوٹ کرنے والوں کو بے نقاب کر کے ثبوت ایثارالقاسمی کو تھما دیے۔ ایثارالقاسمی نے حقنواز کی دی گئ امانت کو بچاتے بچاتے زندگی داؤں پر لگا دی اور وہ امانت ضیاءالرحمن فاروقی کے حوالے کر دی۔ ضیاء الرحمن فاروقی نے بم دھماکے میں جان تو دے دی مگر حقنواز کی دی گی امانت کو اعظم طارق کے حوالے کر دیا۔ اعظم طارق نے طویل عرصہ ڈٹ کر پیغام جھنگوی سنایا اوربچے بچے کو بتلا دیا حسینی وہ ہیں جو حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے والد حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے امام ابوبکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو امام تسلیم کریں۔

اعظم طارق نے 40گولیاں سینے پر کھا کر کہا ہم نے تو اپنا حق ادا کر دیا اور وہ امانت علی شیر حیدری کو تھما دی علی شیر حیدری بھی اسی پیغام کو لے کر چلتے رہے اور پھر جام شہادت نوش فرما گے۔اور امانت لدھیانوی کے ہاتھوں دے کر بتا دیا لاالہ الا اللہ پڑھنے والو ذرا اس پیغام کو بھی پڑھ لینا جو ہم نے بموں اور گولیوں میں سینے چلنے کروانے کے بعد تم تک پہنچایا ہے۔ 

کوئی مانے یا نہ مانے مجھے محسوس یوں ہوتا ہے جھنگوی ؒ  اور اس کی جماعت کے شہداء نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ چونکہ ہمارے ارد گرد آج بھی کئ چیزیں ملاوٹ شدہ نظر آتی ہیں اور یہ فرق تحریک انجمن سپاہ صحابہ ظاہر نہ کرتی تو شاید مجھ سمیت کئ لوگ گھوڑے کو سجدہ کرتے پائے جاتے۔

مجھے بہت چیزوں پر حیرت ہوتی ہے جن چیزوں کو اہل تشیع اور میڈیا میں پزیرائ ملتی ہے ہم بھی وہی گن گاتے ہیں حقائق کیا ہوں ان سے ہمارا لینا دینا سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ محرم الحرام میں سیدناحسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت پر اہل تشیع غم مناتے ہیں تو ہمارے سنی بھی محرم اور واقع کربلا کو حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ کسی بچے سے بھی پوچھو تو بتا دے گا دس محرم کو حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا دن ہے۔ 

حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے بھائ حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا واقعہ شیعہ اس لیے بیان نہیں کرتے کہ اس واقعے سے شیعہ کے اہلبیعت سے دشمنی کے راز کھلتے ہیں جبکہ ہمارے والے اس لیے اس پہ گفتگو نہیں کرتے کہ سیزن میں اس واقعے کو وہ پزیرائ ہی نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے علماء کے علاوہ حضرت حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شہادت کی تاریخ تک ہمارے سنی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتی، کربلا کے میدان میں شہید ہونے والے کتنے مسلمان تھے اور وہ کون کون تھے؟ ابوبکرؓ، عمؓر، عثمانؓ،علیؓ،معاویہؓ کی شہادت و یوم وصال کس تاریخ ہوئ یہ سب باتیں جاننے کی ضرورت نہیں چونکہ ہم رسمی لوگ ہیں جو مارکیٹ میں ڈسکس ہونے والی بائے سیزن چیز ہو گی وہی معلوم ہو گی۔ 


آج بھی ایسے کئ لیکچرر آپ کو ملیں گے جو خود کو سنی بتائیں گے اور ہونگے بھی سنی اور روایات اور تاریخ شیعہ کی سنائیں گے۔ وجہ خوشنودی ہو گی یا پھر لاعلمی۔

اور ان پڑھ سادہ لوگوں میں تو آج بھی وہ چیزیں پائ جاتی ہیں جو ہمارے عقائد سے دور دور تک تعلق نہیں رکھتیں، چاہے رسم ہوں یا اسلامی تاریخ سمجھے جانے والے واقعات۔ 

تو عرض یہ کر رہا تھا بظاہر حقنواز ؒ  کی تحریک بڑی پرتشدد دکھتی ہے مگر اس کے جو فوائد مسلمانوں کو ہوئے ہیں وہ شمار ہی نہیں کیئے جا سکتے۔ اگر حقنواز تحریک نہ چلاتے تو ممکن ہے ففٹی ففٹی عقیدے کے مالک ہوتے۔

اب اگر کوئی یہ اعتراض کرنا چاہتا ہے کہ یہ تحریک تو 1985میں چلی سنی شیعہ تو پہلے بھی تھے؟ تو عرض ہے یہ فتنہ پھیلا بھی خمینی انقلاب کے بعد جس کی دوا حقنواز نے کر دی۔


الغرض سپاہ صحابہؓ نے نہ صرف ناموس صحابہؓ پر پہرہ دیا بلکہ میرے اور آپ کے ایمان کی حفاظت بھی کی اور ہمارے ایمان پر ڈاکا ڈالنے والوں کو بےنقاب کرتے ہوئے کئی قائدین نے جان کی قربانیاں بھی دیں۔

محمدالرسول اللہﷺ کے دین کو امت تک پہچانے والی جماعت صحابہؓ کی ہے، اور دین میں ملاوٹ کرنے والی باطل قوت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہونے والی اصل دین اور ملاوٹ شدہ دین کی پہچان کرانے والی جماعت سپاہ صحابہ ؓ ہے۔


#ThankYouHaqNawazJhangviShaheed-rh

ازقلم: ایم اشرف

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]