محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

ضمنی الیکشن پی کے30بالاکوٹ کی کمپیئن اپنے عروج پر ہے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سیداحمدحسین شاہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ سیدمظہرعلی قاسم کو دیا گیا ہے۔ کانٹے کا مقابلہ بھی ان ہی دونوں امیدواروں کے درمیان ہونا ہے نتائج کچھ بھی نکلیں مگر بالاکوٹ کی تاریخ میں پہلی بار سردار یوسف صاحب کو اپنے اوپر شکست کی تلوار لٹکتی دکھائ دے رہی ہے جنرل  الیکشن2018میں سردار یوسف صاحب کے صاحبزادے سردار شاہجہان صاحب کو آزاد امیدوار صالح محمدخان نے این اے13پر شکست دی اور اب میاں ضیاءالرحمن صاحب کی نااہلی کے بعد جب ضمنی الیکشن کی تیاریاں شروع ہوئیں تو سردار یوسف صاحب کی باڈی لینگویج صاف بتا رہی ہے کہ سردار صاحب کو اپنا مستقبل تاریک ہوتا دکھائ دے رہا ہے اس کی کچھ وجوہات بھی ہیں۔ عرصہ35سال سے سردار محمدیوسف صاحب اقتدار کا حصہ رہے ہیں مگر ان کے حلقے اور تحصیل بالاکوٹ کے عوام رومرہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں یہ وہ بڑی اور بنیادی وجہ ہے جس سے عوام بالخصوص ینگ جنریشن سردار صاحبان سے ناخوش ہے اور ان کے مخالفین کی طرف ہاتھ بڑھاتی دکھائ دیتی ہے۔گزشتہ دنوں سردار محمد یوسف صاحب نے پی کے30پر ن لیگ کا ٹکٹ مظہر قاسم کو دلوایا جو ایک متنازعہ بن چکا ہے چونکہ لوگوں میں یہ بات بھی مشہور ہے مظہرقاسم کے والد سیدقاسم شاہ نے میاں ولی الرحمن صاحب جو میاں ضیاءالرحمن صاحب کے والد ہیں کے ووٹ جلائے تھے۔ میاں ضیاءالرحمن صاحب کے حمایت یافتہ لوگوں کی اکثریت اس فیصلے سے نا خوش نظر آتی ہے بعض نے تو برملا احمد شاہ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور بعض خفیہ انداز سے سردار صاحب کے فیصلے کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ سردار یوسف صاحب چونکہ سیاست کے کافی پرانے کھلاڑی ہیں تو انہوں نے جو اس بار گول کیا ہے وہ بھی منطق کے اعتبار سے عجیب ہی ہے۔ سردار یوسف صاحب میاں ضیاءالرحمن صاحب کی نااہلی کے بعد کسی صورت یہ نہیں چاہتے تھے کہ گجرقوم میں سے کسی نوجوان پڑھےلکھے شخص کو ٹکٹ دیا جائے۔ چونکہ ایسا کرنے سے اگر نئے آنے والے شخص نے اچھا پرفارم کیا تو سردار صاحب کی اپنی سیاست اور بیٹے کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ سردار یوسف صاحب نے آئندہ الیکشن کے لیے اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے کیوائ والوں کے سامنے سر خم کیا ہے۔ چونکہ کیوائ والے بھی جانتے ہیں سردار یوسف کے ساتھ اتحاد کیے بغیر گجر قوم کا ووٹ حاصل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ اور سردار یوسف صاحب نے بھی گول میاں ضیاءالرحمن صاحب کے خلاف کیا ہے۔ میاں ضیاءالرحمن صاحب کی یہ خواہش ہے کہ میاں خاندان کی سیاست برقرار رہے چاہے اس کا کوئ بھائ امیدوار ہو یا کوئ بھی مگر سردار صاحب نے ضمنی الیکشن میں میاں ضیاءالرحمن صاحب کو لولی پاپ دے کر میاں ضیاءالرحمن صاحب کی اس خواہش کو بھی دفنا دیا ہے۔ آئندہ الیکشن میں بڑا اتحاد کیوائ والوں اور سردار گروپ کا ہو گا اور میاں ضیاءالرحمن صاحب اس ضمنی الیکشن میں سردار صاحب سے وفا کرنے پر رنجیدہ ہو کر آنسو بہا رہے ہونگے۔ دوسری طرف اگر ہم احمد حسین شاہ کا جائزہ لیں تو جنرل الیکشن2018میں میاں ضیاءالرحمن صاحب سے چند سو ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے اور اب چونکہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں اور دیگر کئ وجوہات سے مقبول بھی ہیں بظاہر ونر بھی دکھائ دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بالاکوٹ ست بنی کے مقام پر جہاں انہوں نے چند الفاظ میں سردار یوسف کی شرافت کی تعریف کی وہیں میاں ضیاءالرحمن پر اٹیک بھی کیا، میاں ضیاءالرحمن کو والد مرحوم کا نافرمان تک کہا گیا سیاسی حوالے سے اگرچہ یہ سب چیزیں سیاست کا حصہ رہتی ہیں مگر پھر بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ چونکہ ماضی میں سید صلاح الدین ترمزی بھی سخت زبان درازی کی وجہ سے نا صرف خود شکست سے دوچار ہوتے رہے بلکہ لوگوں کے دلوں میں سردار یوسف کی محبت بڑھانے کا سبب بھی بنتے رہے۔ اسی سخت زبان درازی کو سردار یوسف نے کیش کروایا اور عوام کو مزید اشتعال دلاتے رہے۔ اگرچہ میاں ضیاء الرحمن صاحب بھی احمد شاہ کے بارے میں مختلف باتیں کرتے پائے گے کہ احمد شاہ شیعہ ہے احمد شاہ نے سلمان تاثیر کی قبر پر چادر چڑھائ یعنی مذہبی لبادہ اوڑھ کر عوام کو مذہب کے نام پر بھی احمدشاہ سے متنفر کروانے کی کوشش کی گئ باوجود اس کے احمد شاہ کو اپنی زبان کنٹرول کر کے رکھنی ہو گی چونکہ چھوٹی سی مس ٹیک کو بھی یہ لوگ قوم کو اشتعال دلانے کے لیے استعمال کریں گے۔ اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ احمد شاہ نے میاں ضیاءالرحمن صاحب کو نااہل کروایا جبکہ احمدشاہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ مجھ سے ایک ماہ پہلے میاں ضیاءالرحمن کے خلاف مظہرقاسم نے پٹیشن دائر کروائی۔ جو کہ سردار محمد یوسف کا اپنے مفاد کے لیے کیوائ والوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا کے فیصلے کو بدنیتی ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ قصہ مختصر کہ سردار یوسف صاحب نے اپنی بقاء کے لیے میاں ضیاءالرحمن صاحب کی خاندانی سیاست کو قربان کر دیا ہے۔ اب تھوڑی بات کرتے ہیں رائے حق پارٹی کے حوالے سے عام انتخابات میں راہ حق پارٹی کے امیدوار سیدعالم طاہر صاحب تھے۔ اور اس ضمنی الیکشن میں بالاکوٹ رائے حق کی پوری قیادت نے اپنے نظریے پر سمجھوتہ کرتے ہوئے سردار یوسف کی خوشنودی کے لیے ن لیگ کو ویلکم کر لیا۔ کارکنان کی جانب سے شدید تحفظات کے بعد ربنواز طاہر صاحب کو کردار ادا کرنا پڑا انہوں نے کارکنان پر زور دیا کہ چونکہ اب جماعت نے فیصلہ کر لیا ہے تو فیصلے کو برقرار رکھا جائے گا۔ جو یقیناً اچھا اقدام ہے چونکہ فیصلہ واپس لینے سے جماعت کو بڑا نقصان ہوتا  البتہ ایک چیز ربنواز طاہر صاحب نے واضح کی کہ یہ فیصلہ جلد بازی میں ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے یہ فیصلہ انہیں بھی تسلیم نہیں مگر جماعتی نظم ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ برداشت کرنے کی تلقین انہوں نے کی ہے۔

یہ ہے بالاکوٹ کی سیاست اور بدلتے بکتے چہرے مگر عوام کے بنیادی حقوق کب اور کون دلوا سکے گا اس سوال کا جواب فی الحال دینا ناممکن ہے۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]