محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

وہ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، والدین کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا لیکن بھائی نے یہ صدمہ اپنی ذات پر اٹھاتے ہوئے بہنوں کو سنبھال لیا۔ تینوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے، شکل و صورت میں تینوں کی مثال نہ ملتی تھی، مڈل کلاس گھرانہ تھا، والد بہنوں کے نام پر ایک ایک پلاٹ اور بھائی کے لئے وہ گھر چھوڑ گئے تھے جس میں انکی رہائش تھی۔ والدین کے گزرنے اور بہن کی شادی کی عمر ہونے پر ایک پلاٹ اور آدھا سرمایا لگا کر جان سے پیاری بہن کی شادی طے کر دی۔ 


بہت ارمانوں سے ڈولی اٹھی، بھائی کے سر سے آدھا بوجھ اٹھ گیا اور وہ اس رات بہت سکون کی نیند سونے کے لئے لیٹ گیا، رات کے پچھلے پہر فون کے مسلسل بجنے پر اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ بہنوئی کی کال ہے، حیرت سے ہیلو کہا، خیریت دریافت کرنے ہی لگا تھا کہ بنا کچھ سنے کہا گیا ۔۔۔ ’’اپنی بد چلن بہن کو صبح آکر لے جانا، میں نے ایک لڑکی سے گھر بسانے کی خواہش کی تھی اک بد چلن، آوارہ اور عیاش لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ کر دلال بننا مجھے منظور نہیں‘‘۔۔۔ اس پرجیسے تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، رات کانٹوں پر بسر ہوئی اور صبح بہنوئی کے گھر پہنچا تو علم ہوا کہ بہنوئی نے رات کو ہی سب کے سامنے طلاق دے دی ہے۔ الزامات تھے کہ کوئی بھی شریف انسان اپنی بہن کے بارے میں نہ سن سکے۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ ضروری تو نہیں میری بہن خراب ہو، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن وہ کچھ نہ بول سکا۔ 


دو سال اسی ماتم میں گزر گئے اور چھوٹی شادی کی عمر کو جا پہنچی، آخری پلاٹ 

 اور ماندہ رقم لگا کر رخصتی کر دی۔ قدرے سکون کی نیند آئی  اور صبح بہت چاو سے اٹھ  کر بہن کے لئے ناشتہ بنوایا اور اسکے گھر پہنچا لیکن دو سال پرانا منظر جیسے اسکی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا ہی نہ تھا۔ اس کی بہن اپنے شوہر کے قدموں میں پڑی روتے ہوئے اپنی بیگناہی کی قسمیں کھا رہی تھی لیکن بہنوئی نے اسکے سامنے اسکی بہن کو طلاق دے دی۔


پانچ سال گزر گئے، ان کے گھر میں اب بھی وہی تین لوگ تھے جو عید ، بقر عید پر شاید کبھی مسکرا لیتے تھے۔وقت ہر زخم مندمل کر دیتا ہے اس لئے بہنوں کے اصرار پر شادی کے لئے ہاں کر دی اور گھر کے اوپر والا پورشن بیچ کر شادی کے انتظامات ہونے لگے۔ بہنوں کے گھر نہ بس سکے تھے لیکن بہنیں اپنے بھائی کی خوشیاں برباد کرنے کے بجائے اسے آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بہت جوش و خروش سے ، بہت چاو سے دلہن کو ویلکم کیا۔ آدھی رات تک خوشیاں قہقہے بکھیرتی رہیں اور پھر بھائی کو اس کے کمرے میں جانے کا حکم مل گیا۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ دونوں بہنیں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھیں، کمرے سے شور کی آوازیں آرہی تھیں، انہوں نے لرزتے قدموں سے دروازہ بجایا اور دروازہ کھلنے پر کانپتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔ نہ جانے کیوں دونوں کی آنکھیں بستر پر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں، بستر پر سلوٹیوں اور سفید چادر کے سوا کچھ نہ تھا۔


بھائی نے دلہن کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ بولنا ہی چاہا تھا کہ بڑی بہن چادر پر نگاہیں گاڑھے بے ساختہ چھوٹی بہن سے پوچھ بیٹھی۔ ہماری شادی بھی اسی سفید چادر کی نظر ہوئی تھی ناں؟ بھائی کچھ کہتے کہتے رک گیا، جہاں کھڑا تھا وہیں پتھر ہو گیا۔ آج اس گھر میں تین نہیں چار لوگ ہیں اور وہاں کوئی بھی ایک دوسرے کو بد چلن نہیں کہتا۔ 


****

ہر کہانی اور زندگی کا اختتام ضروری نہیں انجام بد پر ہی، کبھی کبھی قرب و جوار میں کھڑے اپنوں کا ایک لفظ، ایک سوال یا ایک فقرہ بھی کہانی کا انجام بدل دیتا ہے۔ خون کے چند قطروں کی جستجو ہے تو کسی قصائی کے پاس چلے جائیں پوری تھیلی مفت میں مل جائے گی۔ رشتہ انسان سے جوڑیں، اسکے ماضی یا خون کے چند قطروں سے نہیں۔ بہن اپنی ہو اور بد چلنی کا الزام لگے تو بھائی اپنی بہن کو ساری عمر پالتا ہے لیکن وہی الزام جب بیوی پر آجائے تو اسے طلاق دی جاتی ہے امان نہیں۔ پھر چاہے اس بیوی کا کوئی بھائی ہی نہ ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]