محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


ہمارے گاؤں کی جامع مسجد میں دو گروپوں کے درمیان کشیدگی اور جھگڑے پر گورنمنٹ نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا تقریباً دو سال تک مسجد بند رہی سابق چیئرمینUC محمدزمان مرحوم اور کچھ انکے دیگر ساتھیوں کی کوشش سے کشیدگی کو ختم کرنے اور مسجد کو آباد کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سرکاری خطیب رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس وقت ہم پرائمری سکول میں پڑھتے تھے، اور کشیدہ حالات میں نماز جمعہ کے لیے جامع مسجد تک جانے کی اجازت گھر سے ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھی۔ سرکاری خطیب نے جب پہلا جمعہ پڑھایا تو ہر طرف خوشی کی فضا بن گئی کہ کشیدگی ختم ہو گی اور شانتی کا دور شروع ہو گا۔ اگلے جمعے کی ادائیگی کے لیے ہمیں بھی اجازت مل گئ اور ہم بھی سکول سے چھٹی کے ساتھ ہی گھر کے مختصر دورے کے بعد جامع مسجد پہنچ گے۔ نئے خطیب صاحب کے دیدار کے طالب ہم ہر سفید کپڑوں میں ملبوس شخص کو بغور دیکھتے کہ کہیں یہ تو نہیں ہیں۔

مسجد کے درمیانی ستون سے ٹیک لگائے دروازے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ ایک سفید کپڑوں میں ملبوس سفید ٹوپی پہنے کندھے پر پیلا رومال لٹکائے نمودار ہوئے، چہرے پر کشادگی لبوں پر مسکراہٹ، کالی داڑھی والے ان مولانا صاحب کی انٹری کے ساتھ ہی ہر شخص کی نظریں ان پر جم گئیں۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ یہی ہمارے نئے خطیب صاحب ہونگے۔
انہوں نے سب سے پہلے کندھے سے رومال صف کے درمیان میں پھینکا اور نماز کی نیت باندھ لی، سلام پھیرنے کے بعد الماری سے قرآن مجید اٹھایا اور مطالعہ شروع کر دیا، چند منٹوں بعد اٹھے اور ممبر پر تشریف لے گے، گود میں پیلا رومال بچھایا قرآن مجید کھولا اور گلہ صاف کرنے لگے، ہمارے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہونے لگیں کہ اتنے دلکش نظر آنے والے مولانا صاحب کی ناجانے آواز کیسے ہو گی۔ یہاں پر ایک بات بتاتا چلوں اس زمانے میں مجھے دو طرح کے مولوی پسند تھے ایک جن کی آواز بہت پیاری ہو، دوسرے جو جذبات میں پچاس ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تقریر کریں۔ سمجھ کچھ آئے یا نہ آئے زبردست فیل ہوتا تھا۔
خیر مولانا صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز کیا۔ الحمداللہ، الحمد اللہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ
بے ساختہ دل پکار اٹھا ارے واہ کیا خوبصورت آواز ہے۔
مولانا صاحب نے اپنے ابتدائی خطبے میں پندرھویں پارے کی پہلی آیت کی تلاوت کی اور اسی عنوان کو لے کر واقعہ معراج بیان کیا۔ اس کے بعد پابندی سے نماز جمعہ کے لیے ہم جانے لگے، چاہے وجہ تقریر سننا ہی کیوں نہ تھا۔
بحرحال نئے آنے والے خطیب صاحب جن کا نام محمداقبال ندیم تھا نے اپنی سریلی آواز میں فرمان الہی کو  زبردست انداز میں لوگوں کو سنا کر لوگوں کے دل بہت جلد جیت لیے۔ ہر جمعے میں گزشتہ جمعے سے زیادہ تعداد میں لوگ آیا کرتے۔

علامہ محمد اقبال ندیم صاحب من گھڑت باباؤں کے قصے کہانیاں سنانے کے بجائے قرآن و حدیث بیان کرتے۔ اور جن واقعات کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں آیا ہے، جیسا کہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام حضرت ابرائیم علیہ السلام، واقعہ اصحاب کہف، حضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ وغیرہ۔
صرف حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ جو ابتداء سے آخر تک بیان ہوا ہے وہ تقریباً آٹھ جمعہ کی نشستوں میں مکمل ہوا ہے، اور ہر نشست کم از کم 55منٹ سے 70منٹ تک کی ہو گی۔ 
اور جن واقعات کو علامہ صاحب نے اپنے جمعہ کے واعظ میں بیان کیا بیان کا انداز اور واقعات سنانے سمجھانے کا ایسا گر تھا کہ سننے والے کو محسوس یوں ہوتا کہ اس نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔

علامہ محمد اقبال ندیم صاحب نے اپنی سربراہی میں مسجد کے بیرون حصے کے پلستر اور دوسرے پورشن کے سیلنگ سمیت بیشمار تعمیراتی کام کروایا، مسجد میں پانچ وقت باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے امام اور بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے مدرس کا انتظام کیا، امام مسجد و مدرس کا نام قاری محمد حفیظ صاحب تھا جو کراچی بنوری ٹاؤن سے تعلیم مکمل کر کے آئے تھے، انکا آباہی علاقہ وادی کاغان راجوال تھا ۔ 
قاری حفیظ صاحب میرے بھی استاد ہیں، قاری حفیظ صاحب ناظرہ قرآن مسنون دعائیں احادیث مبارکہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ صبح شام مسجد جا کر پڑھنے والے بچے بچیوں کی تعداد کم از کم سو سے زاہد تھی۔
یہ علامہ محمد اقبال ندیم صاحب کے خلوص اور محنت کا نتیجہ تھا کہ جہاں مسلک پرستی کی آگ جلنے کی وجہ سے جامع مسجد کو تالے لگ چکے تھے، مسجد سے آذان کی آواز گونجنا بند ہو چکی تھی، آج وہیں پر قرآن کی تلاوت اذان اور باجماعت نماز کی رونقیں لگیں تھیں۔ 
علامہ محمداقبال ندیم صاحب کو سننے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے لیے دریائے کنہار کے اس پار سے لوگ بھی آتے عید پر تو مسجد کے دونوں پورشن پچھلا حال تیسری چھت بھر جاتی حتی کہ لوگ سڑک پر صفیں بنا کر کھڑے ہو جاتے۔ لوگوں کی اس قدر محبت چاہت کے پیچھے وجہ صرف علامہ محمد اقبال ندیم صاحب کی سچائی دیانت داری ہی تھی۔ گاؤں میں کہیں پر بھی کوئی فوتگی ہو جاتی علامہ محمد اقبال ندیم صاحب وہاں پر بھی پہنچ جاتے۔ حالانکہ انکی سکول ڈیوٹی اور اپنی مسجد کی ذمہ داریاں بھی انکے سر تھیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ2005کے زلزلے میں مسجد شہید ہونے کے بعد15سال بیت گے مگر لوگوں کے دلوں میں ان محبت آج بھی ہے لوگ آج بھی ان کا نام سن کر ان کی کمی محسوس ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

زلزلہ2005کے بعد جو صورتحال ابتک ہمارے ہاں پائی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں یہ سب ہو؟ ہمارے ایک سکول ٹیچر جو کہ ہندکو زبان کے بہترین شاعر ہیں اختر زمان اختر صاحب جنہوں نے ایک کتاب لکھی دیوے تلے نہیرا مطلب چراغ کے نیچے اندھیرا۔
یہ عنوان ہمارے علاقے پر بہت فٹ آتا ہے۔ جہاں علماء حفاظ قراء کی تعداد کو شمار کیا جائے تو وہاں کی مجموعی آبادی کا 45%یہی لوگ ملیں گے، پھر ان میں ایسے نامور لوگ بھی ملیں گے جو پاکستان کے مختلف بڑے شہروں سمیت دنیا کے کئی ممالک میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مگر چراغ کے نیچے اندھیرا اپنے علاقے کی صورتحال سے لاپرواہ اپنی موج مستی میں مصروف عمل ہیں۔
جہاں سال میں دو عیدوں کی نماز کے لیے بڑے بڑے نام تشریف لے جاتے ہیں مگر عام دنوں میں بوڑھے بزرگوں کے نماز جمعہ کا کوئ خیال نہیں۔

پندرہ سال کی افراتفری کے بعد ہمیں پھر سے ایک اقبال ندیم کی ضرورت ہے جو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کی رضا کے لیے ہمارے علاقے کے لوگوں کو متحد کر کے اللہ کا قرآن سنائے۔ ہمارے بچوں کے لیے قرآن سیکھنے کا بندوبست کرے، ہماری معاشرتی غلطیوں پر ہمیں آگاہ کرے۔ ہم سے تنخواہ بھی نہ لے ہر جمعے کو جیب سے کرایہ خرچ کر کے ہمیں نماز جمعہ پڑھانے آئے۔ 

کاش پھر سے کوئی اقبال ندیم آئے جو چراغ کے تاریک حصے میں اجالا بھر دے

ازقلم: محمد اشرف......... (23/06/2020)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]