محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

ازقلم: محمد اشرف


سامعین اکرام میرے سوشل میڈیا کے عزت مآب دوستو دنیا کے اندر اربوں کھربوں  انسان آۓ اور آئندہ بھی آتے رہیں گے،، ہر انسان کے اندر خوبیاں خامیاں پائ جاتی ہیں۔

اب تو چونکہ قربِ قیامت ہے، فسادات  کا دور ہے، لڑائ جھگڑے قتل غارت گری کی سب سے بڑی وجہ انسانوں بلکہ مسلمانوں کے دل میں دنیا کے مال و دولت کی محبت کی وجہ ہے، ایک پلاٹ کی خاطر بھائ بھائ کا دشمن بنا پھرتا ہے۔ باوجود اس کے کئ لوگ ہمیں ایسے بھی ملیں گے جو دنیا سے بےنیاز انسانیت کا درد رکھنے والے ہوتے ہیں، لیکن نہ جانے ہم کیوں انہیں اہمیت نہیں دیتے۔


دو روز قبل میں نے فیس بک آن کیا تو میرے ایک کزن نے میاں عبدالمجید صاحب کی تصویر اپلوڈ کی ہوئ تھی، جسے میں نے دیکھا تو میں دیکھتا ہی رہ گیا،، بظاہر کوئ ایسی بات نہیں تھی مگر ناجانے پھر بھی کیوں نظریں تصویر پر رک گیئں خیالات انیسویں صدی کے آخری حشرے میں چلے گے، نہ جانے کیا کیا سوچا، اور کیوں سوچا، بعض سوچ کے الفاظ کو راز ہی رکھنا پڑتا ہے، میں نے میاں عبدالمجید صاحب کی تصویر سوشل میڈیا پر پہلی بار دیکھی ہے،،، 


سب سے پہلے تو آپ کو بتاتا چلوں میاں عبدالمجید صاحب کے بارے میں، جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے تو مجھے یاد ہے میاں عبدالمجید صاحب کھولیاں باڑی کی مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھایا کرتے تھے، اور اس کے علاوہ گھروں پر جا کر معذور بچوں اور خواتین کو بھی پڑھایا کرتے تھے، کھولیاں روڈ سائیڈ سے نیچے کی ایک بڑی تعداد نے میاں عبدالمجید صاحب سے قرآن پڑھا، یہ استاد بابا کے نام سے مشہور ہیں، ان کا نام بہت کم لیا جاتا ہے، استاد بابا ان کی پہچان ہے، ان کی اولاد نہیں ہے مگر پھر بھی صبر و  شکر کے ساتھ عبادت الہی اور خدمت مخلوق الہی میں مشغول رہتے ہیں، ان کے دو بھائ اور ہیں میاں احمد جی صاحب جو بالاکوٹ شوہال میں رہتے ہیں، اور دوسرے میاں محمد دین صاحب جو باڑی میں ہی مقیم ہیں، تقوہ و دینداری کی مثال ہیں یہ تینوں بھائ،،، جو لوگ ان سے واقف ہیں وہ یقیناً میری بات کی تائید کریں گے،، 

عام طور پر آج کل کلچر یہ ہے کہ جہاں دوچار لوگ جمع ہو جائیں وہ غیبت کرنا شروع کر دیں گے،،، میاں عبدالمجید صاحب کی ایک الگ پہچان ہے، جب بھی جہاں بھی کسی مجمے یا فرد کے پاس بیٹھتے ہیں تو دین کی بات کرتے ہیں، اس کے علاوہ ان کی کوئ گفتگو ہوتی ہیں نہیں۔


اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اوپر اس نے لکھا میں نے تصویر دیکھی تو میں دیکھتا ہی رہ گیا،، اور ماضی کی یاد میں چلا گیا مگر تحریر میں تو ٹاپک ہی الگ ہے،،، تو چلیے میں آپ کو اس طرف لے کر چلتا ہوں۔


انسان کو دو انسان ہمیشہ یاد رہتے ہیں 1⃣مشکل میں ساتھ دینے والا، اور 2⃣دوسرا دشمنی کرنے والا یا مشکل وقت میں ساتھ نہ دینے والا بلکہ تماشہ دیکھنے والا،،ان کو انسان بھلا دینا چاہے بھی تو ایسا ممکن نہیں ہے،،


آپ کا بھی تجربہ ہو گا، کہ جن لوگوں کے والدین نہیں ہوتے  یا جو لوگ غریب ہوتے ہیں، ان کو ان کے رشتے داروں میں بھی اہمیت نہیں دی جاتی، غریب ہو گا تو لوگ سوچیں گے یار ان سے ہمیں کیا فائدہ ملے گا رہنے دو،،، اور اگرمالیت ٹھیک ہے تو جو رشتہ دار قریب آۓ گا بھی وہ بھی لالچ رکھ کر کہ چلو کچھ نہ کچھ حاصل کریں گے، 


عام طور پر رشتے داریاں بڑی میٹھی ہوتی ہیں، مگر جب کسی کم عمر کے سر سے والدین کا سایہ اٹھتا ہے تو وہ میٹھے رشتے شہد میں زہر جیسے کام دکھاتے ہیں،،

اور جب وہ بچے پروان چڑھتے ہیں تو بہت سارے لوگ اس وقت ان کے قصیدے گا رہے ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ ہماری کی گئ خوش آمد انہیں سچ لگنے کے بجاۓ ہمارے بچپن میں ان کے ساتھ کیئے گے ظلم کی یاد انہیں دلا رہی ہے۔


اس تحریر کو وہی سمجھ سکے گا جسکے سر سے بچپن سے والد یا والدہ کا سایہ اٹھا۔


لیکن سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کوئ ایک ایسا شخص نمودار ہوتا ہے کہ جو سارے درد سمیٹ لیتا ہے، 


جب ہماری والدہ فوت ہوئیں تو مجھے تو انکی وفات کی یاد نہیں تاہم بعد کے حالات ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو،  ہم   سب بہن بھائ  چھوٹے تھے والد محترم مستریوں کا کام کرتے تھے دور دراز کام کر کے رات کو دیر سے گھر پہنچتے ہم سب کھانا کھاتے اور بیٹھ کر باتیں شروع کر دیتے، بجلی ان دنوں ہمارے گاؤں میں نہیں تھی، لالٹین میں مٹی کا تیل ڈال کر روشنی کی جاتی تھی، گھر کے بڑے بڑے کمرے ہوتے تھے لالٹین کی روشنی کم ہوتی تھی کمروں میں ڈر لگتا تھا کہ چارپائ کے نیچے سے کوئ آفات نکل کر ہمیں کھا نہ جاۓ، 

اس لیے کھانا کھانے کے بعد کچن میں ہی محفل شروع ہو جاتی قصے کہانیاں بڑے شوق سے سنا سنایا کرتے تھے،  


ایک قصہ سناتا تو باقی خاموشی سے سنتے جاتے جب قصہ ختم ہوتا تو سنانے والے کو پتہ چلتا یہ تو سب سوۓ ہوۓ ہیں، صرف میں جاگ رہا ہوں، اب وہ بھی ڈر کے مارے کسی کونے کھدرے میں منہ چھپا کر سو جاتا، جب والد محترم آتے تو کوئ چارپائ کے اوپر کوئ نیچے فرش پر تو کوئ دیوار سے ٹیک لگاۓ سکون سے خراٹے مار رہے ہوتے، پھر وہ اٹھا کر کمروں میں لے جاتے اور سلا دیتے، ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک گاۓ رکھی ہوتی تھی، گھر کو تالے لگا کر سب بہن بھائ گاۓ کو چروانے لے گے اور کہیں پر گھر کی چابیاں گم ہو گیں، ڈھونڈنے کے باوجود نہ مل سکیں اندھیرا ہو گیا، گھر واپس آ گے ان دنوں والد محترم بہت دور کام پہ تھے تین چار دنوں بعد چکر لگاتے فون والا سسٹم نہیں تھا، گھر کے باہر ایک چارپائ پڑی رہتی تھی، تین دن تک اسی چارپائ پر گھر کے باہر گھر کا پہرہ دیا اور تین روز بعد والد صاحب آۓ تو انہوں نے تالا توڑا، ان تین دنوں میں نہ ہمیں اتنی عقل آئ کہ تالا بھی توڑا جا سکتا ہے، اور نہ ہی کسی پڑوسی کو بتانے کی عقل آئ، اور عجیب اتفاق تھا کہ کوئ پڑوسی بھی نہیں آیا اس دوران،،،،


 اس طرح کے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے تحریر لمبی ہو گئ اس کے لیے معذرت اب آپ کو بتاتا ہوں میاں عبدالمجد عرف استاد بابا کا ذکر کیوں کیا گیا،


اپنی آپ بیتی کا تذکرہ اس لیے کیا کہ میری پوسٹ کا اصل مقصد آپ کو سمجھ آ سکے،،،،


استاد بابا کا گھر ہمارے گھر سے تقریباً کافی دور ہے، لیکن یہ اکثر ہمارے گھر چکر لگا لیتے تھے، صبح کے وقت ہم سب ان کے پاس مسجد میں قاعدہ پڑھنے جاتے، جب چھٹی ہو جاتی تو ہمیں روک لیتے باقی سب بچوں کو گھروں کو بھیج دیتے،، اور پھر ہمیں اپنے گھر لا کر چاۓ پلاتے ناشتہ کرواتے حالانکہ ہم گھر سے ناشتہ کر کے بھی نکلتے اور استاد بابا کو بتاتے بھی کہ ہم کھا پی کر آۓ ہیں،، مگر استاد بابا نہیں مانتے تھے کہ اتنے سویرے اور دور سے آتے ہو ناشتہ تم نے نہیں کیا ہو گا،، تمہیں کرنا پڑے گا، اور گھر میں بتاتے میں نے خود سنا کہ ان بچوں کا بہت خیال رکھنا ان کی والدہ نہیں ہے،،،،


مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ دن کو میری سسٹر روٹیاں بنا رہی تھی، استاد بابا آگے، استاد بابا بیٹھ کر دیکھنے لگے روٹی جب توے تک پہنچتی تو ٹوٹ پھوٹ جاتی اور جب توّے سے اترتی تو کہیں سے جلی ہوئ کہیں سے کچی کہیں سے موٹی پتلی، استاد بابا خود ہاتھ دھوتے ہیں اور گوندھے ہوۓ آٹے کے روٹیاں بنا کر دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اس سے بعد کئ دفعہ دن کو آتے اور روٹیاں بناتے بھی اور طریقہ بھی بتاتے اور چلے جاتے،،، 


گزشتہ سردیوں سے پچھلی سردیوں میں گاؤں میں ایک فوتگی ہوئ میں وہاں گیا، موسم خراب تھا چھتری بھی لے گیا، جب جنازے کے بعد روانہ ہوا تو بڑی تیز بارش شروع ہو گی مجھے اسی دن واپس پنڈی آنا تھا، راستے میں ایک کزن مل گئ جو استاد بابا کے گھر کے پاس رہتی تھی، اس نے کہا آپ کے پاس چھتری ہے آپ میری بچی کو گھر تک چھوڑ دیں، میں نے کہا سسٹر آپ یہ چھتری رکھ لیں، لیکن وہ نہیں مانی تو بچی کو میں نے اٹھایا اور اپنی تیز رفتار سے چل پڑا، جب ان کے گھر کے پاس پہنچا تو استاد بابا بھی وہاں مل گے، بڑے پیار اور گرمجوشی سے ملے، ان کے ساتھ ایک مہمان تھا ابھی گھر سے نکلے تھے کہیں جانے کے لیے، مجھے کہتے ہیں تم میرے گھر جاؤ اور چاۓ پی کر جانا میں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی کہ جی استاد بابا ضرور جاؤں گا۔ استاد بابا کہتے ہیں تم جاؤ گے یا میں خود تمہیں گھر چھوڑ کر آؤں خیر میں نے انہیں کہا، کہ میں ضرور جاؤں گا اس کے بعد وہ متمئن ہو گے، میں نے بچی کو پہنچایا، اور استاد بابا کے گھر کو ٹتولنے کی کوشش کی مگر ذلزلہ کے بعد تمام گھر نئے بنے ہیں جس کی وجہ سے گھر تلاش کرنا تھوڑا مشکل تھا، چونکہ باقی بھی سب رشتے دار تھے اور جو دیکھ لیتا بٹھا لیتا تو اتنا وقت میرے پاس تھا نہیں، میں واپسی کا راستہ چل پڑا، اور مجھے محسوس ہوا جو محبت شفقت استاد بابا کی بچپن میں تھی آج بھی وہ اسی مقام پر ہے، اور اس دن بھی مجھے ماضی کے وہ دن یاد آ گے تھے اور گزشتہ دو دن پہلے جب تصویر پر نرضی اللّٰہ تعالٰی نظر پڑی تو بھی یاد ماضی نے آ گہرا۔


میں نے شروع میں ایک بات کہی تھی انسان اپنے مشکل وقت میں اپنے محسن اور اپنے دشمن کو مرتے دم تک نہیں بھول سکتا،  میری اس تحریر کا ایک ایک لفظ سو فیصد سچائ پر 

میرا مقصد آپ تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ، اگر آپ کے اردگرد یا رشتے داری میں کسی کی والدہ والد یا دونوں فوت ہو جائیں تو ان بچوں کا ضرور خیال کیجیئے بہت ضرورت ہوتی ہے ایسے وقت پر ان کی کسی کے پیار کی کسی کے سہارے کی،  انسان پرورش پا جاتا ہے مگر ماضی کے تلخ حالات اور اپنوں کے ہاتھوں سے لگے زخم وہ کبھی نہیں بھول سکتا،  اور اسی طرح کسی شخص کا دیا ہوا پیار بھی انسان چاہا کر بھی نہیں بھلا سکتا، 

اس درد اور شدت کو وہی جان سکتا ہے جس کے سر پر گزر چکی ہو، کسی بےسہارا کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہو اور آپ  سہارا نہ دیں یہ بھی ظلم کی بات ہے۔


ایک دفعہ نبی کریمﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے ایک شخص آیا یا رسول اللہﷺ میرا بچہ گم ہو گیا ہے آپ دعا فرما دیجیئے مجھے امید ہے آپکی دعا کی قبولیت سے میرا بچہ مل جاۓ گا، ایک اور صحابی یہ بات سن رہے تھے اس نے کہا تیرا بچہ آج میں نے دیکھا ہے فلاں جگہ یتم بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، وہ شخص خوشی سے دوڑ پڑا آپﷺ نے آواز دی واپس آؤ جب واپس آیا تو آپﷺ نے فرمایا، جب بچے کے پاس جاؤ گے تو اسے سینے سے نہ لگانا، اور بیٹا بھی نہ بولنا ہاتھ سے پکڑ کر لے کر چلے جانا۔

اس شخص نے حیرانی سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ایسا کیوں کروں۔

تو آپﷺ نے فرمایا وہاں اور یتیم بچے بھی کھیل رہے ہیں، ان کے سامنے تم اپنے بچے کو پیار کرو گے یا بیٹا کہو گے تو ان کے دل میں بھی والدین کی حسرت آۓ گی انہیں تکلیف پہنچے گی۔



پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

؛؛؛؛؛ایم؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛اشرف؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]