محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



مسلم مورخ سچ لکھتا ھے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ھو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ھے ۔ تاریخ عالم شائد ھی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی ۔
ٹیپو سلطان شہید نا صرف ایک مردِ مجاہد تھا بلکہ حقیقی معنیٰ میں حضرت اقبال کا وہ مردِ مومن تھا جو عالِم بھی تھا اور عابد بھی ۔ ایک جری سپاھی اور بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی ۔ ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رھنما بھی تھا اور عوام دوست قائد بھی ۔
سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ھاتھ آئی امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رھا تھا اور مسلمانانِ ھند تقسیم ھو رھے تھے ۔ ٹیپو سلطان نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ دی ۔
سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ھو سکی ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے شیطان جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ھونے دیا جائے گا تو پھر مغربی طاقتوں کا ہندوستان پر قبضہ ھرگز نہیں ھو سکتا ۔ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لئے انگریز ، نظام اور مرھٹے متحد ھو گئے ۔ انگریز اسے ھندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائےعامہ کی اخلاقی ھمدردی حاصل کرنے کے لئے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچا دیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے ۔

حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ھو کر اعلان کر دیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ھلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ھے اور پھر 4 مئی 1799 ء 29 ذیقعدہ 1213 ھجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا ۔ صبح سویرے اپنے طاﺅس نامی گھوڑے پر سوار ھو کر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا ۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار چند مقامات پر گر چکی تھی ۔

سلطان نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ جا کر غسل کیا ۔ یاد رھے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رھنے لگا تھا ۔ غسل سے فارغ ھونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتا رھا ۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترا ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وھیں دوپہر کا کھانا طلب کیا مگر ابھی ایک نوالہ ھی لیا تھا کہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں ۔ ٹیپوسلطان نے سپاھیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ھے تو معلوم ھوا کہ شاھی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ھو گیا ھے اور انگریزی فوج سلطنت کے غداروں کی مدد سے بلا روک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آ رھی ھے ۔ وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ھوا چند جانثاروں کو ساتھ لیا اور قلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا ۔ ٹیپو سلطان کے باھر نکلتے ھی غدار ِ ملت میرصادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آ سکیں اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ءامت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ھوا اپنی جان پر کھیل کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ھو کر ٹیپو شہید کہلایا مگر اس غداری کی سزا میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی ۔

اس کی تفصیل تاریخ دان صاحب حملات حیدری نے جن الفاظ میں بیان کی ھے وہ ھوبہو پیش کر رھا ھوں ۔ ”میر صادق نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آ کر دربانوں کو کہا کہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کر لینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک سپاھی ملازم سلطانی آ کر اسے لعن طعن کرنے لگا کہ اے روسیاہ ، راندہ درگاہ یہ کیسی بےحمیتی ھے کہ تو سلطان دین پرور محسن عالی گوھر , ٹیپو کو دشمنوں کے جال میں پھنسانے کے بعد اپنی جان کیسے بچا لئے جاتا ھے کھڑا رہ ، روسیاھی کے کاجل سے اپنا منہ تو کالا کر لے ۔

یہ کہتا ھوا کمال طیش سے ایک ھی وار میں اس کو آب تیغ سے شربت اجل پلا گھوڑے کی زین سے زمین پر مار گرایا ۔ اس بدبخت میر صادق کی لاش چار دن تک گلنے سڑنے کے بعد قلعے کے دروازے پر بغیر کفن کے دفن کر دی گئی ۔ آج بھی لوگ آتے جاتے قصداً اس ننگ آد م ، ننگ دین ، ننگ وطن مردود کی قبر پر تھوکتے ، پیشاب کرتے اور ڈھیر کے ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں۔’’ افسوس صد افسوس ! کہ آج کے ننگ وطن ، ننگِ آدم ، ننگ ِ دین غداروں نے ابھی تک میر صادق کے عبرت ناک انجام سے نہ کوئی سبق سیکھا ھے نہ ھی سیکھیں گے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]