محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



تین روز قبل20اکتوبر2019بروز اتوار "بالاکوٹ" گاؤں کھولیاں درویش آباد میں نماز جنازہ کے لیے جمع ہوئے لوگوں نے نماز جنازہ سے پہلے نماز عصر دو حصوں میں باجماعت ادا کر کے عیدین کی یاد تازہ کر دی۔ 
گزشتہ چودہ سال سے یہاں دو جگہوں پر عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔
سنہء2001کے بعد پیدا ہونے والے بچے شاید ہی اس راز کو جانتے ہوں کہ نماز عیدین دو جگہ پر کیوں ادا کی جاتی ہے؟ 
سنہء2005کے ذلزلے میں مسجد کی شہادت کے بعد یہ جگہ مختص ہوئ جسے عیدگاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2005میں پیدا ہونے والے بچے بھی اب بلوغت میں قدم رکھ چکے ہیں، مگر 2005میں جس عیدگاہ کی بنیاد پڑی تھی وہ تاحال نابالغ ہی ہے۔ 
اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ ابتدائ سالوں میں عیدگاہ میں لوگ زیادہ اور مسجد میں کم ہوا کرتے تھے، پھر کبھی کبھار تعداد برابری کی سطح پر بھی رہی اور اب گزشتہ چند سالوں میں مسجد کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔

عیدگاہ میں موسم کی خرابی کے باعث جانا بھی دشوار ہوتا ہے چونکہ وہاں پر کھلی فضا میں نماز ادا کی جاتی ہے، نماز کے لیے صفیں اور لاؤڈ سپیکر آج بھی دور دراز سے لائے جاتے ہیں۔ ہر عید پر عیدگاہ کے لیے چندہ ہونے کے باوجود چودہ سالوں بعد بھی عیدگاہ کی حالت یہ ہے کہ صف بندی کے بعد کھڑا ہونے کے لیے ایک ٹانگ پر وزن ڈال کر دوسری لات ڈھیلی چھوڑ کر بیلنس برابر کر کے کھڑا ہونا پڑتا ہے جو کسی بھی صورت نماز میں درست نہیں۔ 

 ہر عید پر چندہ کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ جب آپ اگلی عید پر آئیں گے تو یہاں آپ کو کام نظر آئے گا، چودہ سالوں میں جو چیز نمایاں نظر آئ وہ صرف ہر دو یا تین عیدوں بعد خطیب چینجنگ!!!
اہل علاقہ کے لیے یہ اک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، عیدین کے علاوہ سال بھر میں 50کے لگ بھگ جمعے بھی ہوتے ہیں، وہاں کے بزرگ، نوجوان اور بچے نماز جمعہ کہاں ادا کریں؟
چار جگہ کا متبادل آپشن موجود ہے۔ کپی گلی، گھنول، کیوائ، بالاکوٹ شہر  لیکن ان جگہوں پر جانے کے لیے طویل وقت، بہترین صحت اور جیب خرچ لازم ہے۔ اور اگر سال بھر جمعہ کی نماز کی سہولت نہ مل سکے تو دو عیدیں بھی انہی مقامات پر جا کر ادا کی جا سکتی ہیں۔ عیدین کی نمازوں کا اہتمام پھر کیونکر ضروری ہے؟
اور اگر کوئی یہ کہے کہ سال بھر نماز جمعہ مخالفین کے پیچھے ہی ادا کر لینا چاہیے تو بہتر ہے دو عیدیں بھی وہیں پر ادا کر لینے کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ 

یہ باتیں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا مجھے خود مناسب نہیں لگتا، بحرحال کڑوی حقیقت یہی ہے کہ کہ عوام کے ساتھ چودہ سال تک جو کچھ ہوتا رہا وہ انتہائ شرمناک ہے، مسلکی اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں اور ہر مسلک کے لوگ مکمل آزادی سے اپنے مسلک پر قائم دائم ہیں، اپنی عبادتگاہیں بنا رکھی ہیں، لیکن ہمارے ہاں اکثریت رکھنے کے باوجود لوگ در در پر کیوں بھٹک رہے ہیں؟

یا تو اب اس کھیل کو بند ہو جانا چاہیے، عوام کی مرضی وہ جہاں چاہے جمعے اور عیدین ادا کرے، یا پھر عوام کی رائے لے کر مستقل حل نکالا جائے۔
اگر یہ سوچ رکھا ہے کہ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا تو جناب عالی اگلے چار سے پانچ سالوں میں پورے علاقے نے مجبوراً  پرانی جگہ پر دل لگا بیٹھنا ہے، تو پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ پھر تمھارے پاس ایسا کوئ بیانیہ ہی نہیں ہو گا جس کی بناء پر تم بات کر سکو،،،،

چودہ سالوں میں سستی کہاں کہاں ہوئی؟ کس کی وجہ سے ہوئی؟ وعدوں کے باوجود کام آگے کیوں نہ بڑھ سکا؟ اکثریت اقلیت میں اور اقلیت اکثریت میں کیوں تبدیل ہوتی رہی؟ یہ سوال بھی صرف آج ہی پیدا ہوتے ہیں، وقت کبھی حالات سازگار نہیں بناتا، حالات کے لیے خود کو سازگار بنانا پڑتا ہے۔ 
ینگ جنریشن نے اب ان چکروں میں پڑنا نہیں اور پرانے لوگوں نے کہنا ہے مزید اعتماد کی گنجائش نہیں۔

بقلم: محمد اشرف

1 تبصرہ:

Bottom Ad [Post Page]