محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



اکتوبر2003میں ممبرقومی اسمبلی ”مولانا محمداعظم طارقؒ“ کی شہادت کے بعد پرنٹ میڈیا کے ایک ادارے ماہانہ خلافت راشدہ نے مولانا اعظم طارق شہیدؒ پر ایک کتاب شائع کی، جس میں ان کی زندگی کے ہر پہلو پر تفصیلی روشنی ڈالی گئ، ان پر قاتلانہ حملوں سمیت ان کے خاندان اور ان کی بیوہ اور بچوں کے تاثرات بھی لکھے گے۔
بینظیر بھٹو مرحومہ، میرظفراللہ خان جمالی سمیت اس وقت کے پاورفل اور اقتدار پر براجمان لوگوں سے بھی مولانا اعظم طارق شہیدؒ کے متعلق سوال کیا گیا۔ بینظیر بھٹو سمیت تمام سیاستدانوں نے اعظم طارق شہیدؒ کی شہادت پر دکھ کا اظہار کیا، حالانکہ سیاسی طور پر اعظم طارق شہیدؒ کا شمار بینظیر بھٹو کے  سب سے بڑے مخالفین میں کیا جاتا تھا۔
جب مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا گیا، کہ مولانا اعظم طارق شہیدؒ کی شہادت پر آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
تو مولانا فضل الرحمن صاحب نے تاریخی جواب دیا جو ان کے بغض کی کھلی علامت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جواب دیا۔ ہمارے کوئ تاثرات نہیں،ہم جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں فضل الرحمن نے یہ جواب کیوں دیا؟
مشرف دور میں وزارت عظمی کی کرسی کے لیے میرظفراللہ خان جمالی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن وزارت عظمی کے امیدوار تھے، اور اعظم طارقؒ نے اپنا ووٹ میرظفراللہ خان جمالی کے حق میں دیا تھا۔ یہی وجہ فضل الرحمن کے دل میں نفرت کا سبب بنی اور اس نے اعظم طارق کی شہادت کے بعد بھی اس نفرت کو اپنے سینے میں پال رکھا۔

آج فضل الرحمن عمران خان سے سیاسی نظریاتی اختلاف نہیں رکھتا بلکہ دلی بغض رکھتا ہے، جو شخص کسی کی موت کے بعد بھی اس سے نفرت کا اظہار کرے وہ شخص اپنے مخالف کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا سے متعلق عمران خان کی تقریر کے بعد تمام طاغوتی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ عمران خان جیسے لیڈر کو راستے سے ہر صورت ہٹایا جائے اور انڈیا سے ن لیگ پیپلز پارٹی کی محبتیں کو ڈھکی چھپی ہیں نہیں، اب فضل الرحمن بھی ن لیگ، پیپلزپارٹی اور انڈین سپورٹ سے پاکستان میں انتشار پھیلانے کی بھرپور کوشش میں ہے۔  

مجھے یقین ہے کہ ہمارے انٹیلیجنس ادارے تمام صورتحال پر نظر رکھے ہونگے، اور مناسب وقت پر ان غداروں کے خلاف ایکشن بھی لیا جائے گا۔ 
مولانا فضل الرحمن کی منافقانہ اور وطن مخالف سوچ فکر آج کی نہیں بڑی پرانی ہے، ہمیں یاد ہے جب بھارت کی خوشنودی کے لیے کہا تھا کشمیر سے زیادہ تو فاٹا کے حالات خراب ہیں، اور اگلے روز بھارتی نیوز پیپرز کی ہیڈلائن میں فضل الرحمن کا بیان چھپا تھا۔
فضل الرحمن کتے کی وہ دم ہے جو کسی بھی صورت سیدھی نہیں ہونی، اس کے اندر کی نفرت خطرناک وائرس بن کر پھیلتی جارہی ہے، اب حکومت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں کو بھی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔ اور مسلح جنگجو بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان دشمن اور اسلام دشمن فضل الرحمن کو استعمال کریں گے، لہذا ان کے احتجاج کو سیاست کا حصہ سمجھ کر اگنور کرنے کے بجائے ان کو ان کی اوقات پر لانا وقت کی اشد ضرورت ہے، یہی امن کا تقاضا ہے اور اسی میں ملک کی بہتری ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]