محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


وطن سے دور پردیسی بھائ

قارئین اکرام!!   دنیا میں اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے ویسے تو کائنات کا ذرہ ذرہ نعمت خدا وند کریم ہے انسان صرف اپنے جسم کے کسی ایک اعضاء کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تو نہیں کر سکتا۔ اللہ کی دی گئ نعمتوں میں مال و دولت ایک ایسی نعمت ہے جو انسان بہت ساری سہولیات دیتی ہے اور پریشانیوں سے بچاتی ہے۔ 
کہیں پر اللہ تعالی کسی کو دولت دے کر آزما رہے ہیں اور کہیں پر مال و دولت کی تنگدستی دے کر آزماتے ہیں۔ جو مال و دولت پا کر بھی اللہ کا شکر گزار رہا وہ یقیناً کامیاب ہوا اور جس فاقوں میں رہ کر بھوک و افلاس برداشت کر کے بھی صبر و شکر کرتا رہا وہ بھی کامیاب ہوا۔ اللہ نے جسے مال دیا تو اس پر لازم قرار دیا کہ وہ مستحقین کی مدد کرے صدقات و عطیات دیا کرے ذکواة دیا کرے۔
اور جس نے اللہ کے دیے پر شکر ادا کیا اپنی تنگدستی میں بھی خالق ارض و سماء کی تعریفیں کرتا رہا اللہ اس کا بہتر اجر دینے والا ہے۔
تمہید تھوڑی لمبی ہو گئی اس کے لیے معذرت!!! 
آج کل ہمارے ہاں خصوصاً پاکستان، ہندوستان، بنگال میں ملکوں کی حکمرانی سنبھالنے والوں نے قومی دولت کو ذاتی وراثت سمجھ کر اقراباپروری میں لٹانا  شروع کیا ہوا ہے جس کا براۓ راست اثر عوام پر پڑتا ہے، نوجوانوں کو روزگار نہیں ملتا در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں معاشی حالات گھروں کے اس حد تک چلا جاتے ہیں کہ مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجاۓ کئ لوگ اپنے وطن سے باہر محنت مزدوری کے لیے نکلتے ہیں۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ گھر بار ماں باپ بہن بھائ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جو لوگ وطن سے بے وطن ہو جاتے ہیں وہ کسی خوشی سے نہیں بلکہ وقت کی تلخیوں کی وجہ سے جاتے۔
کئ سپنے ان کی آنکھوں میں ہوتے ہیں۔ اپنا مکان بنائیں گے بہنوں کی شادیاں کروائیں گے چھوٹے بہائیوں کو اعلی تعلیم دلوائیں گے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ہم یہ سب کر لیں گے تو ہماری زندگی تو گزر جاۓ گی مگر ہمارے دوسرے بہن بھائیوں کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
اور جانتے ہو جب یہ نوجوان اپنے بہن بہائیوں کے مستقبل کی فکر میں پردیس کے لیے نکلتا ہے تو اس کے دل پہ چھریاں لگنے کے ساتھ ساتھ پیچھے چھوڑ کر جانے والے اس نوجوان کی بیوی پر کیا بیت رہی ہو گی۔ ایک عورت کے لیے شادی کے بعد سب کچھ اس کا خاوند ہی ہوتا ہے کئ ایسی پوشیدہ باتیں ہوتی ہیں جو بیوی اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے شیئر نہیں کر سکتی۔ ذرا دلوں پہ ہاتھ رکھ کر میری اگلی بات کو سمجھ کر پڑھنا۔
جب آپ کا بھائ یا والد یا کوئ بھی شادی شدہ انسان پردیس میں رزق کی تلاش کے لیے نکلتا ہے تو وہ اپ کے لیے قربانی دیتا ہی ہے مگر پیچھے گھر میں موجود اس کی بیوی بھی اس سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس جتنی قربانی تو دیتی ہیے پتہ ہے وہ کیسے؟ 
جب ایک مرد ملک سے باہر چند سالوں کے لیے نکلتا ہے تو اس کی بیوی اس کے گھر پر موجود اسکے والدین اور بہن بہائیوں کی خدمت پر مامور ہوتی ہے، وہ گھر کے سب کام کاج کرتی ہے وہ سب کی باتیں بھی سنتی ہے، باہر سے جب وہ نوجوان رقم بھیجتا ہے تو اکثر دیکھا گیا ہے والدین کو بھیجا جاتا ہے۔ اب والدین کی مرضی وہ بہو کو کتنا دیں کیا کریں کہاں لگائیں۔
جہاں وہ نوجوان محنت مشقت سے خود کو توڑ کر اپنے بہن بہائیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ وہاں اس کی بیوی بھی شوہر کے ہوتے ہوۓ اپنی خواہشات کو دبا کر ایک بیوہ کی سی زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔
دو لوگ آپ کی سہولت کے لیے اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ رہے ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو ایسے حادثات بھی پیش آ جاتے ہیں کہ سالہا سال کمانے والا جب واپس آ کر زندگی کے کچھ ایام سکون کے گزارنا چاہتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے تیرا یہاں ہے کیا؟ ساری زندگی تو نے باہر کمایا وہ پیسہ کہاں گیا یہ تو سب ہمارا ہے تیری مرضی اب جہاں بھی جا۔

 اور کبھی کبھار آپ سنتے ہونگے فلاں شخص ملک سے باہر تھا گرا ایکسیڈنٹ ہوا فوت ہو گیا ڈیڈ باڈی ہفتے بعد آ گئ دفنا دیا اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ شخص اکیلا مرا تو یہ سرا سر غلط ہے۔ صرف وہ نہیں مرا آج اس کی ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک مر گئ آج اس کے باپ کی امیدیں مر گئیں آج اس کی بیوی کا سہارا ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا آج اس کے بھائیوں کے اعلی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر انجینیئر بننے کے خواب بکھر گے آج اس کی جوان بہنوں کی شادیوں کی امیدیں فنا ہو گیئں وہ اکیلا نہیں مرا پورا خاندان مر گیا۔ کئ سپنے ٹوٹ گے۔

 جانتے ہو جب ایک جوان کئ امیدیں لے کر پردیس میں نکلتا ہے تو پیچھے سے اس کے والدین میں سے کوئ یا بہین بہائی رشتے دار فوت ہو جاتے ہیں کیا گزرتی ہے اس پر  وہ اپنے پیاروں کا آخری دیدار تک نہیں کر سکتا۔ پردیس میں اسے کوئ یہ پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ آپ نے وقت پہ کھانا کھایا کہ نہیں؟ بیمار پڑ جاۓ تو اس کا کوئ پرسان حال نہیں کتنی تلخ ہوتی ہے پردیس کی زندگی اس کا تصور بہت کم لوگ کر سکتے ہیں کہا جاتا ہے                 (جگہ وہی جانے جہاں چولہا جلے)
میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے جب کوئ رشتےدار آۓ تو اس کے بارے میں شکوے کرتے رہتے ہیں فلاں شخص اتنا عرصہ باہر گزار کر آیا میں نے موبائل مانگا تو مجھے نہ لا کر دیا۔ میری کیمرے کی فرمائش نہ پوری کی مجھے تو ایک سو روپے تک نہ دیے۔ اس کے باہر سے کمانے کا آخر فائدہ کیا وغیرہ وغیرہ۔

ارے اللہ کے بندوں انہوں نے عرب صحراؤں سے بوریاں نہیں بھریں انہوں نے یورپ کے سنگلاخ جنگلوں سے پیسوں کے ٹرک نہیں بھرے محنت مشقت کرکے خون پسینہ بہا کر خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کمایا ہے۔

💠اور آخر میں دو باتیں میری یاد رکھنا💠 

نمبر1✔ جب  آپکا کا کوئ قریبی عزیز وطن سے باہر جاۓ تو اس کے گھر مال بچوں کا خیال رکھنا۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھنا تم پر فرض ہے جانتے ہو کیوں؟
تمھاری نظروں میں وہ باہر سے بہت پیسہ بھیج رہا ہے گھر کا نظام چلتا ہو گا مگر ہو سکے کئ مہینوں سے اسے تنخواہ نہ مل رہی ہو حالات خراب ہوں یا جو پیسے بھیجے وہ کسی کا قرض دے دیا ہو خرچے سے مجبور ہوں گھر میں بچے بھوکے ہوں اس چیز کا خیال رکھنا ہم سب کی عین ذمہ داری ہے۔

نمبر2✔ کسی بھی بیرون ملک عزیز دوست رشتہ دار سے کبھی بھول کر بھی کوئ فرمائش مت کرنا۔ ہو سکے اس کے حالات کیسے ہوں اور وہ شرم کے مارے آپ سے انکار بھی نہ کر سکے الٹا وہ بھی پریشان اور آپ کی بھی ناراضگی ہو۔

 اپنے لیے تو سب جیتے ہیں مزہ تب ہے دوسروں کے لیے جیا جاۓ۔ 

باقی میری بیرون ملک موجود محنت مزدوری کرنے والے بھائیوں سے گزارش ہے اپنے کام کی حالت کھانے اور سختی بارے وہاں سے ویڈیوز وغیرہ بنا کر شیئر کر دیا کریں تاکہ فرمائش کرنے والوں کو بھی احساس ہو جاۓ کہ باہر جا کر کتنی مشقت کے بعد چند پیسے کماۓ جاتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب لکھا تھا کہ⬇⬇⬇

جو گھر سے دُور ہوتے ہیں
بہت مجبور ہوتے ہیں
کبھی باغوں میں سوتے ہیں۔ کبھی چھپ چھپ کے روتے ہیں
گھروں کو یاد کرتے ہیں۔ پھر فریاد کرتے ہیں
مگر جو بے سہارا ہوں
گھروں سے بے کنارا ہوں
اُنہیں گھر کون دیتا ہے
یہ خطرہ کون لیتا ہے
بڑی مشکل سے ایک کمرہ۔   جہاں کوئی نہ ہو رہتا
نگر سے پار ملتا ہے۔    بہت بیکار ملتا ہے
تو پھر دو تین ہم جیسے۔    ملالیتے ہیں سب پیسے
اور آپس میں یہ کہتے ہیں
کہ مل جُل کر ہی رہتے ہیں
کوئی کھانا بنائے گا
کوئی جھاڑو لگائے گا
کوئی دھوئے گا سب کپڑے۔ تو رہ لیں گے بڑے سُکھ سے
مگر گرمی بھری راتیں۔ تپیش آلود سوغاتیں
اور اُوپر سے عجیب کمرہ۔ گُھٹن اور حبس کا پہرہ
تھکن سے چُور ہوتے ہیں۔ سکُون سے دُور ہوتے ہیں
بہت جی چاہتا ہے تب۔ کہ ماں کو بھیج دے یارب
جو اپنی گود میں لے کر۔ ہمیں ٹھنڈی ہوا دے کر
سلا دے نیند کچھ ایسی۔ کہ ٹوٹے پھر نہ ایک پل بھی
مگر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تو کر لیتے ہیں سمجھوتہ
کوئی دل میں بِلکتا ہے
کوئی پہروں سُلگتا ہے
جب اپنا کام کر کے ہم
پلٹتے ہیں تو آنکھیں نَم
مکان ویران ملتا ہے
بہت بے جان ملتا ہے
خوشی مدھوم ہوتی ہے
فضا مغموم رہتی ہے
بڑے رنجور کیوں نہ ہوں۔ بڑے مجبور کیوں نہ ہوں
اوائل میں مہینے کے۔ سب اپنے خون پسینے کے
جو پیسے جوڑ لیتے ہیں۔ گھروں کو بھیج دیتے ہیں
اور اپنے خط میں لکھتے ہیں ۔ہم اپنا دھیان رکھتے ہیں
بڑی خوبصورت گاڑیاں ہیں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں
ہم یہاں بہت خوش رہتے ہیں۔ جبھی تو واپس نہیں آتے

اللہ تعالی تمام پردیسیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور رزق میں برکت عطا فرماۓ۔

پوسٹ کو شیئر ضرور کیجیئے شاہد کوئ ناکارہ سی بات کسی کے دل لگ ہی جاۓ۔

از قـــــــــــلم :  مــحــمـد اشـــرف

موبائیل اور ٹیکنالوجی سے متعلق معلوماتی ویڈیوز کے لیے ہمارے یوٹیوب چینل کا وزٹ کریں 

MAS TVکلک کر کےچینل پر جائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]