محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


پاکستان میں مسلم اکثریت اور اسلام پسند عوام کی وجہ سے سیاستدان جب الیکشن کے میدان میں اترتے ہیں تو انہیں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مذہب کا کارڈ پھینکنا پڑتا ہے۔ جہاں وہ خود کو اسلام کے داعی اسلام کے سپاہی منوانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں مخالفین کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی بھی اتنی ہی کوشش کرتے ہیں۔ عوامی جلسوں میں مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات ابھارنے والے جب اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو اپنے تمام تر عہد و پیمان بھول جاتے ہیں۔ جس طرح مذہبی راہنما اپنے فرقے کے علاوہ دوسروں کے بارے میں نفرت انگیز باتیں عوام کو بتاتے ہیں ٹھیک اسی طرح سیاستدان بھی مذہب کا پتہ پھینک کر عوام کو مشتعل کرنے میں پوری طاقت استعمال کرتے ہیں۔
فرق صرف یہ ہے کہ مذہبی راہنماؤں کے پاس علمی دلائل ہوتے ہیں جبکہ سیاستدان صرف بونگیوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ اٹھائیں تاریخ اور دیکھیں پاکستانی سیاستدانوں کی ہسٹری کون کتنا اسلام کا ہمدرد تھا اور کس نے اسلام کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹے؟
اگر پاکستانی سیاستدان واقعی اسلام سے محبت کرتے ہیں تو اقتدار میں جانے کے بعد کیوں خود کو لبرل منواتے ہیں؟ کیوں اپنا رویہ مشکوک بنا لیتے ہیں؟ 
الیکشن کمپیئن میں بینرز پر نمایاں طور پر (مجاہدختم نبوتﷺ) لکھوانے کو کیا سمجھا جائے؟ یہ وہ شرمناک طریقہ کار ہیں جن کا تصور کسی مہذب معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا، مثال کے طور پر ن لیگ کے دور میں آئین ختم نبوت میں ترمیم کرنے پر شیخ رشید صاحب اور تحریک انصاف سمیت مذہبی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا اور اسی احتجاج کی وجہ سے شیخ رشید نے مجاہدختم نبوت کا لقب خود کو دلوا دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس موقع پر جمیعت علماءاسلام (ف) ن لیگ کی اتحادی جماعت تھی اور حکومت میں تھی اس لیے انہوں نے ن لیگ کے اس فعل کی مخالفت کے بجائے دفاع کیا۔ اس طرح کے بیشمار واقعات آپ کو ملیں گے جس سے سیاستدانوں کے مکروہ چہرے آپ کو واضح نظر آ سکتے ہیں۔ اور آپ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اسلام کا صرف نام استعمال کیا جا رہا ہے پس پردہ ان کے ذاتی مفاد اور اقتدار کی لالچ کے سوا کچھ نہیں۔

ناموس صحابہؓ بل اور مسلم لیگ (ن)

گزشتہ دنوں عمران خان کی جانب سے گفتگو میں کچھ غزوات کا تذکرہ کرتے ہوئے صحابہ اکرامؓ سے متعلق الفاظ کے چناؤ میں بدترین غفلت کے بعد جہاں مذہبی جماعتوں کے راہنما اور کارکنان غصے میں پائے گے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی راہنماؤں نے بھی اپنا رد عمل دینا شروع کر دیا۔
شہباز شریف صاحب نے ناموس صحابہؓ بل پیش کرنے کی بھی حمایت کر دی، اگر ناموس صحابہؓ بل پاکستان کی اسمبلی سے پاس ہو کر قانون کا حصہ بن جائے تو یقینی طور پر پاکستان کے اندر شیعہ سنی لڑائ کا خاتمہ ممکن ہے۔
مگر شہباز شریف کی زبان سے ناموس صحابہؓ بل کی بات کرنا منافقت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ 
اہل تشیع عقائد میں صحابہؓ کی گستاخیاں بالخصوص خلفاء راشدین اور امہات المومنین  کی گستاخی کو ثواب سمجھا جاتا ہے۔ اس پر ماضی میں بیشمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں صحابہ اکرامؓ کو معاذ اللہ کافر تک لکھا گیا ہے۔ اس کے جواب میں 1985میں علامہ حقنوازجھنگویؒ نے علماء اکرام اور مفتیان اکرام کے فتاوہ جات کو مدنظر رکھتے ہوئے انجمن سپاہ صحابہؓ کے نام سے تنظیم بنائ جس کا مقصد دفاع ناموس صحابہؓ اور نیشنل اسمبلی سے ناموس صحابہؓ بل پاس کروا کر قانون کا حصہ بنوانا تھا۔ یہ تنظیم انجمن سپاہ صحابہ سے سپاہ صحابہؓ اور پھر ملت اسلامیہ کے نام سے ہوتی ہوئ اہلسنت والجماعت کے نام سے آج بھی جانی جاتی ہے، مگر اب یہ تنظیم نہیں بلکہ ایک مقبول ترین جماعت بن چکی ہے۔ مولانا حقنواز جھنگوی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مولانا ایثارالقاسمی بھی اسمبلی پہنچے مگر انہیں بہت جلد راستے سے ہٹا دیا گیا۔

ان کے بعد مولانا اعظم طارق نے ناموس صحابہؓ بل اسمبلی میں پیش کیا، مگر اس بل کو پاس کروانے سے قبل ہی مولانا اعظم طارق کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے جس ملک کی 90%فیصد آبادی صحابہؓ سے عقیدت رکھتی ہو اس ملک میں تحفظ ناموس صحابہؓ بل پاس کیوں نہیں ہوتا؟ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بل پیش کرنے والے رکن اسمبلی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ بل پاس نہ ہونے کی بنیادی وجہ حکمران طبقے کا انٹرنیشنل دباؤ میں آنا اور منافقت کرنا ہے۔ تین بار ن لیگ پاور میں آئی ناموس صحابہؓ بل پیش کیوں نہ کیا؟ دفاع ناموس صحابہؓ کی تحریک چلانے والوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مروانے والی شہبازشریف کی حکومت تھی۔ مگر آج شہباز شریف بات کرنے چلے ہیں ناموس صحابہؓ بل کی، جو سراسر منافقت اور دوغلا پن ہے۔  

ان کا نہ تو دین اسلام سے کوئ واسطہ ہے نہ ہی کوئ ہمدردی مخالفین کی کردار کشی کے لیے ہیرا منڈی کی عورتوں سے لیکر ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جو انکے ذہن میں آئے۔ نواز شریف کی بھارت میں دو قومی نظریہ پر گفتگو کیا اسلام کی حدود کے اندر مانی جائے گی؟ رانا ثناءاللہ کا قادیانیوں کے حق میں محبت بھرا بیان عین ایمان سمجھا جائے گا؟  نون لیگ کے مشاہداللہ کا سینٹ میں کم عمر شادی کے قوانین بارے کہنا کہ چودہ سو سال پہلے حالات مختلف تھے آج ہم چودہ سو سال پرانی باتوں کے پابند نہیں،،،،کیا یہ بھی عین شرعی تھا؟

ن لیگ کی قیادت سے لے کر نیچے تک ٹوٹل ڈرامے بازی ہے، ناموس صحابہؓ بل پیش کرنا اور قانون کا حصہ بنوانا بحثیت مسلمان ہر رکن اسمبلی کا فرض بنتا ہے مگر اسلام اور مقدس شخصیات کے نام کو استعمال کر کے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کرنے والے قابل لتر ہیں چاہیے وہ شہباز شریف ہو فضل الرحمن ہو یا شیخ رشید صحابہؓ کی کوئ تعریف کرے یا برا کہے صحابہؓ کی عظمت وہی ہے جو قرآن نے بیان کر دی۔ صحابہؓ کا مقام وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے بتا دیا۔ البتہ صحابہؓ کی توہین کرنے والا بدبخت اور لعین ضرور ٹھہرایا جانے کا حقدار ہے۔

اور ایک اور اہم نقطہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
کل ایک ویڈیو دیکھی جس میں مولانا عطاءالرحمن بڑے جذبات میں بولے جا رہے ہیں، ان کی گفتگو پر مجھے کوئ اعتراض نہیں مگر جمیعت کے چاہنے والے نوٹ کر لیں۔ 
عمران خان نے جو کچھ کہا وہ الفاظ مناسب نہیں تھے، مقدس شخصیات کے لیے باادب اور بہترین الفاظ کا چناؤ انتہائ ضروری ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے عمران خان گستاخ صحابہؓ ہیں۔ جنید جمشید نے اپنی ایک تقریر میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق الفاظ کا درست چناؤ نہیں کیا تھا، جس پر مخالف فرقے کے لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور نا صرف گستاخ ڈکلیئر کیا بلکہ کراچی ائیرپورٹ پر مارپیٹ کر لہولہان بھی کر دیا۔ مگر وہی مخالف فرقہ صحابہؓ اور امہات المومنینؓ کی گستاخی کرنے والوں کو اپنا بھائ مانتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح جمیعت علماء اسلام (ف) کے غیرت مندوں کی غیرت بھی تب نہیں جاگتی جب وہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ایم ایم اے جیسا پلیٹ فارم بنا کر دشمنان صحابہؓ سے بغلگیر ہوتے ہیں انکے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ ان سے وفاداری کے عہد کرتے ہیں۔
جمیعت علماءاسلام کے غیور لوگوں کو تب بھی غیرت نہیں آئ تھی جب (ایم ایم اے) کے رکن اسمبلی نے ایک بل پیش کیا تھا جس میں لکھا تھا نصاب کی کتب سے قرآنی آیات اور خلفاء راشدین اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نام نکال دیا جائے۔ اس بل کی مخالفت پر سامنے آنے والے شخص کو دنیا اعظم طارقؒ کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا عطاءالرحمن صاحب لاکھ گرج لو لوگ جمیعت کی اصلیت جان چکے ہیں، اس میں کوئ شک ممکن ہی نہیں جمیعت علماءاسلام(ف) بھی باقی جماعتوں کی طرح ایمان فروش بن چکی ہے، جو اب اسلام اور مقدس شخصیات کے نام پر اقتدار تک رسائ حاصل کرنے کی دوڑ میں دوسری جماعتوں کے ساتھ چل رہی ہے۔

اللہ تعالی وطن عزیز پاکستان کی بھولی بھالی عوام کو ایمان فروش ضمیر فروش لیڈروں سے آزادی دلائے۔ (آمین)


Muhammad Ashraf 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]