محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

تعلیم علم دینے کا نام ہے، اور تعلیم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو آپ اس میں اسی وقت قدم رکھ سکتے جب آپ کے پاس اس شعبے کا   خاطر خواہ علم ہو۔   (یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ کسی بھی شعبے میں اسی وقت قدم رکھ سکتے ہیں جب آپ کو اس شعبے میں کام کرنے کے لئے  مناسب تعلیمی استعدادحاصل  ہو اور اس طرح زندگی کے تمام شعبوں میں  داخل ہونے کے لئے ایک مناسب سطح تک تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے)  تعلیم دینے کے عمل میں اگر توجہ علم حاصل کرنے پر ہو گی تو یہ ایک مفید اور کار آمد عمل ہوگا اور اگر توجہ صرف ڈگری حاصل کرنے یا کچھ مخصوص جماعتیں پڑھ جانے پر ہو گی تو یہ ایک بے کار عمل اور وقت کے ضیاع کے مترادف  ہو گا۔ اس سے یہ تو ہو سکتا ہے آپ  کوئی نوکری حاصل کر لیں یا کوئی اور فائدہ اٹھا لیں مگر اس سے جو حقیقی فائدہ یعنی علم کا حصول ہو گا آپ اس سے محروم ہی رہ جائیں گے۔

 اس بات کی   اہمیت آپ اس سے سمجھ جائیں کہ پاکستان میں لاکھوں ڈگری ہولڈر اور کروڑوں پڑھے لکھے افراد ہیں مگر جہاں تک علم کی بات ہے ان میں سے معدودے چند ہی اہل علم  ہوں گے، میں یہ بات پاکستان میں مختلف اداروں کی زبوں حالی، انحطاط، بد انتظامی، کرپشن اور دن بدن بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کی  بنیاد پرکہہ رہا ہوں جو کہ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس ملک میں ڈگری ہولڈر اور پڑھے لکھے لوگ تو بہت ہیں مگر اہل علم کا فقدان ہے۔ 


اب پاکستان میں علم کو کیسے عام کیا جا سکتا ہے اور لوگوں کو ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علم کیسے دیا جا سکتا ہے اس کی بات کرتے ہیں۔

 

علم- تفہیم اور ابلاغ

کسی بھی سطح پر علم دینے کے لئے ضروری ہے کہ علم کا ابلاغ ہو اور جو علم دیا جائے اس کی تفہیم بھی ہو اگر یہ دونوں عمل نہیں ہوتے تو علم دینے کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، آپ رٹو طوطے تو تیار کر لیں گے یا ایسے گدھے جن پر کتابیں لدی ہوں لیکن ان کے پلے بھی  کچھ ہو یہ ممکن نہیں ہوتا۔ آپ مختلف پبلک سروس کمیشنز کی سالانہ رپورٹز پڑھیں تو آپ بھی اسی نتیجہ پر پہنچیں گے  کہ پاکستان میں  رٹو طوطے تو تیار ہو رہے ہیں مگر علم تک کسی کی رسائی  نہیں ہے۔ 

ابلاغ علم کی تفہیم کے لئے بنیادی  ضرورت ہے۔ بات یہ کہ جس زبان میں علم دیا جا رہا ہے وہ علم دینے میں سہولت کا باعث ہونا چاہئیے نا کہ وہ علم کے ابلاغ میں ایک رکاوٹ بن جائے، اس لئے  استاد اور شاگرد کی زبان ایک ہونا چاہئیے اور اس میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کی بھی زبان ہو کہ بچہ اپنے معاشرے میں چلتا پھرتا، بولتا  سنتا ہے اب اگر معاشرے کی زبان اور ہو اور تعلیم کی زبان اور ہو تو   ابلاغ کا عمل رک جائے گا اور علم کی ترسیل  میں ایک رکاوٹ پیدا ہو جائے گی،  یہ عمل اس وقت  ایک  انتہائی اہم صورت حال اختیار کر لیتا ہے جب ایک بچہ اپنے گھر سے سکول کے ماحول میں پہنچتا ہے،  اس وقت جب  اسے ایک اجنبی اور غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے  تو اس کا ذہن ابتدائی مرحلوں میں  ہی مشکلات اور پیچیدگیوں  کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ بات اس کا تمام عمر پیچھا کرتی رہتی ہے  اور وہ کبھی بھی ایک اچھا طالب علم یا کار آمد شہری نہیں بن سکتا۔  

اب بات آ جاتی ہے کیا مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہئیے یا قومی زبان میں، ہم دیکھتے  ہیں کہ پوری دنیا میں یہ بات کسی بھی سطح پر تنازعہ کا باعث نہیں بنتی تمام ملک ایک قومی زبان یا چند بڑی علاقائی زبانوں میں تعلیم دیتے ہیں اور اس طرح تعلیم دی جاتی ہے نا کہ تعلیم کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں' اردو' تعلیم دینے کے لئے تمام تقاضے پورے کرتی ہے، یہ پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور چونکہ بابائے قوم قائد اعظم کے فرامین اور آئین پاکستان کی دفعہ 251 بھی اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں  کہ اس کو پاکستان کی سرکاری زبان ہونا چاہئیے اس لئے اس کو  ہر سطح پر تعلیم دینے کے لئے بھی استعمال کیا جانا چاہئیے۔ 

ارود کو تعلیم دینے کا  ذریعہ بنانے سے ہم اس ملک کو تعلیمی میدان میں دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے قابل بنا سکیں گے اور بہت جلد پاکستان دنیا کی بڑی قوموں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔

اردو میں تعلیم کو ضرورت بنا دیں

اس وقت مقابلے کے تمام  امتحان انگریزی میں لئے جاتے ہیں، اعلی' تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے، اور تمام اچھی ملازمتوں کے لئے  انٹرویو انگریزی  میں کئے جاتے ہیں۔ گویا کہ انگریزی کو ہماری ضرورت بنا دیا گیا ہے، اگر ان جگہوں سے انگریزی کو نکال دیا جائے تو اس ملک میں انگریزی کو ایک ضرورت کی حیثیت حاصل نہیں رہے گی، میرے بہت سے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان کے تمام نجی سکول  سسٹم انگریزی میڈیم ہیں یہ پاکستان میں اردو کے نفاذ کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر  کھڑے ہو جائیں گے۔اور اس ملک میں اردو نافذ نہیں ہونے دیں گے، میرا موقف ہے کہ وہ انگریزی میڈیم اس لئے ہیں کہ ہم نے اپنا سارا ڈھانچہ انگریزی کے ستونوں پر کھڑا کیا ہوا ہے آج یہ ستون اردو کے کر دئے جائیں تو کل ہی یہ سب ادارے فخر سے اپنے آپ کو اردو زبان میں اعلی' معیار کی تعلیم دینے والے ادارے کہلانا شروع کر دیں گے۔    

یکساں نصاب تعلیم 

ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم کو رائج کر کے ہی ہم اس ملک کے حقیقی جوہر قابل کو سامنے لا سکتے ہیں ایک ایسا نظام جہاں ہر بچے کو ایک جیسی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ یہ کوئی ایسی مشکل بات نہیں ہے دنیا بھر کے ممالک میں یکساں نصاب تعلیم ہی  رائج ہوتا ہے تعلیم دینے کے لئے سرکاری یا نجی سکول ہو سکتے ہیں مگر یہ بات کہ وہ کوئی علیحدہ علیحدہ نصاب پڑھا رہے ہوتے ہیں سچ نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب بچے جب ایک جیسا نصاب پڑھیں گےتب ہی ان کا حقیقی جوہر سامنے آئے گا بصورت دیگر بہت  سا جوہر قابل خستہ حال تعلیمی اداروں یا فرسودہ نصاب تعلیم کی وجہ سے ضائع ہو جائے گا جیسا کہ اب بھی ہو رہا ہے۔

مجھے شہباز شریف صاحب کا یہ جذبہ بہت پسند آیا ہے کہ وہ غریب کے بچے کو بھی ایچی سن کالج جیسی تعلیم دینا چاہتے ہیں، مگر چند دانش سکول قائم کر کے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا، ہاں اگر وہ تمام تعلیمی اداروں میں ایک جیسی سہولتیں فراہم کر دیں، نصاب تعلیم یکساں کر دیں اور ہرتعلیمی ادارے میں ہر  سطح پر تعلیم دینے کے لئے اردو کو نافذ کر دیں تو بلا شبہ ایک غریب کا بچہ اور ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ایک جیسی تعلیم حاصل کریں گے۔    

استاد

تعلیم دینے کے عمل میں استاد کی اہمیت شاید دوسرے تمام عوامل سے اہم ہے۔ استاد کے انتخاب کا ایک انتہائی کڑا اور شفاف عمل ہونا چاہئیے اور پھر اس کی تربیت عالمی مستند معیارات کے مطابق ہونا چاہئیے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ استاد کو معاشرے میں سب سے بہتر سہولتوں اور مشاہرے سے نوازنا چاہئیے۔ اس سلسے میں وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن کی طرز پر وفاقی اور صوبائی ایجوکیشن سروس کمیشن قائم ہونا چاہئیں جو ہر سطح کے اساتذہ کی تقرری کا اختیار رکھتے  ہوں ۔ تعلیم کے شعبے کو بہترین مراعات، سہولتوں اور مشاہروں سے آراستہ کرنا چاہئیے۔ اس سے یہ ہوگا کہ بہترین  طالب علم تعلیم کے شعبے کی طرف آئیں گے اور بہترین اساتذہ آنے والی نسلوں کو بہترین علم سے بہرہ ور کریں گے۔  

جامعات کی ترقی

پاکستان کی تمام جامعات کو تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے دنیا کی بہترین جامعات بنانے کے عزم کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس  سلسلے میں تمام دنیا سے بہترین اہل علم کو پاکستان آنے کے لئے ترغیبات دینا ہوں گی، اور پاکستان سے اہل علم کے بیرون ملک جانے پر مکمل پابندی عائد کرنا ہوگی۔ اسی طرح کسی بھی سطح پر  تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔ اس سے پاکستان کا جوہر قابل ملک میں ہی رہے گا اور پاکستان کے تعلیمی ادارے دنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھیں جائیں گے۔  

 دارالتراجم کا قیام

 جب پاکستان میں تعلیم اردو زبان میں دی جائے گی تو پھر تعلیم کے لئے  جدید ترین کتابوں کی فراہمی   اور عالمگیر  سطح پر ہونے والی علمی ، سائنسی اور فنی تحقیق سے روشناس ہونے کا  مسئلہ پیدا ہوگا۔ اس مسئلے کو دارالتراجم کے قیام کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ان دارالتراجم میں دنیا بھر کی زبانوں کے ماہرین موجود ہوں  جو دنیا میں کہیں بھی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والی کتاب ، جریدے،  رسالے اور سائنسی تحقیقی رپورٹز کا  اردو میں  ترجمہ کرنے کی صلاحیت رکھتےہوں۔  ان اداروں کے پاس یہ صلاحیت ہونا  چاہئیے کہ دنیا  بھر میں  جیسے ہی کسی  بھی جگہ  پر  کوئی کتاب چھپے وہ  اس کا ترجمہ کر کے 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں پھیلا سکیں ۔   اس کے ساتھ  یہ بھی  ہوگا کہ عالمی طباعتی اداروں کو جب معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں صرف اردو میں لکھی ہوئی  کتابیں  ہی بیچی جا سکتی ہیں توبہت سی کتابیں تو وہ خود ہی اردو میں ترجمہ کر کے چھاپ کر پاکستان میں بھیجیں گے اس کے ساتھ ساتھ  اپنی ضرورت کے مطابق کتابیں  اور جدید تحقیق پر مبنی جرائد کا ہم خود بھی ترجمہ کروا کر چھاپ سکتے ہیں۔   

تعلیمی ادارے

پاکستان کے تعلیمی اداروں کو سہولیات اور عمارات کے حوالے سے ایک معیار تک لانا ہوگا۔ ہر سطح کے ادارے کے لئے عمارت کا اور سہولیات کا ایک کم از کم معیار مقرر کرنا ہوگا اور پھر ایک ایک کر کے ایک منصوبہ بندی کے تحت تمام تعلیمی اداروں کو  اس مقررہ معیار تک لانا ہوگا۔ 


پاکستان میں تعلیمی نظام کے ناسور

او  لیول اور اے لیول

پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بیرون ملک جانے کا رجحان ہے جس میں او لیول اور اے لیول کی تعلیم نے جنون کی حد تک اضافہ کر دیا ہے۔  اس نظام کا نتیجہ ذہانت کا ملک سے فرار ہے، یہ نظام  ہمارے بچوں کو مغرب کےتعلیمی اور معاشرتی  نظام کو بالاتر  اور بہتر دکھاتا ہے اور نتیجتا" ہمارے بچے ان سے ذہنی طور پر مغلوب ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے اپنا مستقبل پاکستان کے بجائے مغربی ممالک میں دیکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر بچے اپنی تعلیم اور بعد میں مستقل قیام کے لئے یورپ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح پاکستان ایک بہت بڑی تعداد میں اپنے جوہر قابل سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتا ہے۔    ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام کی خوبیوں کو اپنے نظام میں سمویا جائے اس سارے سلسلے کو اردو کے قالب میں ڈھالا جائے اور اس کو اپنے تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ 

غیر ملکی مشنری تعلیمی ادارے

پاکستان میں غیر ملکی مشنری اداروں کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور یہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں کو بری طرح پراگندہ کر رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مغرب کی بھونڈی نقالی اور بے راہروی کا بڑا سبب بھی یہ تعلیمی ادارے ہیں جو تعلیم کے نام پر ہمارے بچوں کے ذہنوں کو مسموم کر رہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کو ان مشنریز کے قبضے سے چھڑا کر ان کو پاکستانی انتظامیہ کے حوالے کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ وہ تمام اساتذہ جن کا تعلق دوسرے ممالک سے ہو ان کو ان کے ممالک میں واپس بھجوانا چاہئیے۔ تاکہ وہ ان لوگوں کی خدمت کر سکیں جو ان کے ہم وطن ہیں اور جن کو ان کی خدمات کی  حقیقی ضرورت ہے۔ 

اختتام

اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات پر ہر شخص بات کر سکتا ہے، مگر ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ مضمون پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا ہے، اس کا مقصد پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی رہ پر گامزن کرنا ہے، اس ملک میں علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہے، جن اندھیروں، بد انتظامی، لوٹ کھسوٹ، کرپشن ، جہالت،اور ہزار ہا برائیوں کا شکار وطن عزیز ہے ان سے اس کو نجات دلانا ہے۔ اگر کسی کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے میں  اس کا جواب دینے کے لئے حاضر ہوں، مگر اتنا ذہن میں رہے کہ بات تہذیب کے دائرے یں رہتے ہوئے اور شائستگی سے کی جائے، اور ایسی بات جو آپ کے اور میرے علم میں اضافے کا باعث ہو، محض کٹ حجتی یا بحث برائے بحث کا کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ 


آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

تحریر کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]