محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

سال 2011میں پاکستان تحریک انصاف نے لاہور مینار پاکستان پر ایک شاندار اور تاریخی جلسہ کیا،جس کو میڈیا کے ذریعے عوام میں کافی پزیرائی ملی نوجوانوں کی کثرت تحریک انصاف کی طرف بڑھتی نظر آئ۔ وہ دور چونکہ پیپلز پارٹی کا تھا اور ہم بھی عمر کے حساب سے پیپلز پارٹی یعنی زرداری دور سے ہی سیاست اور حکومت بارے سمجھنے کے قابل ہوئے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ن لیگ اور پی پی ہی وہ دو بڑی جماعتیں تھی جن کو اقتدار ملنے کے قوی امکانات تھے۔

 اور زرداری صاحب نواز شریف کے مقابلے میں قسمت کے کچھ زیادہ ہی لکی تھے کہ بینظیر بھٹو کا قتل ہو گیا اور عوام نے اظہار ہمدردی کرتے ہوۓ پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کا غم ہلکا کرنے کے لیے تیر کے نشان کو کامیاب بنا دیا۔ میرے جیسے90کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کے لیے ان دونوں پارٹیوں کو پہچاننا آسان نہیں تھا، اور ذاتی طور پر سیاست میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ماضی کے قصوں سے بھی ناواقف تھا۔


اچانک عمران خان کا بڑا جلسہ اور نوجوانوں کی اکثریت کا تحریک انصاف کی جانب بڑھتا رجحان بھی دلچسپ لگنے لگا۔ سال2013کے الیکشن کو نیوٹل رہ کر صرف انجوائے کیا۔ کسی کے ساتھ زیادہ ہمدردی نہیں تھی۔

البتہ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں پنجاب حکومت یعنی شہبازشریف صاحب کی طرف سے سستا آٹا دو روپے روٹی سکیم تندور وغیرہ جیسے کئ منصوبے شہباز شریف کو پسندیدہ قرار دینے کی سوچ دماغ پر سوار کرتے مگر ضمیر کہتا فی الحال مزید نظارے دیکھ پھر فیصلہ کر کون ٹھیک کون غلط ہے۔


اخبار پڑھنے کا معمول تھا اور اخبار میں بھی صرف کالم پڑھا کرتا تھا خبروں سے اتنا لگاؤ نہیں تھا۔ 2014میں جب عمران خان نے دھاندلی کے خلاف تحریک کا آغاز کیا تو میڈیا نے سنسنی پھیلا دی جس کی وجہ سے ہر خاص و عام ٹیلی ویژن اور اخبارات میں مگھن دیکھا جانے لگا۔ عمران خان کی دو دو گھنٹے کی تقریروں اور ن لیگ کے وزیروں اور نواز شریف کے پرچی سے دیکھ کر جوابات دینا بھی دلچسپی کا باعث بنے۔ البتہ اب سیاست کے اس نئے باب سے کافی دلچسپی ہونے لگی اور سب کے کردار پلٹ کر دیکھنے شروع کیئے۔ نواز شریف کی پارٹی اور پیپلزپارٹی کی ماضی کی حیران کن داستانیں بھی بخوبی جانیں، اور سیاست کے میدان میں مقبولیت پانے والی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی دلچسپی سے سننا شروع کیا۔ نواز شریف اور زرداری صاحب کے مقابلے میں عمران خان کی گفتگو سیدھی دل میں اترتی چونکہ عمران خان کی گفتگو میں ہمیشہ نچلے طبقے اور غریب طبقے کے وہ مسائل بیان کیئے جاتے جو خاندانی رائیس اور امیر شخص جان بھی نہیں سکتا۔

ضمیر اس بات کی گواہی دے چکا تھا کہ سچ یہی ہے، عمران خان واقعی ایک عوامی لیڈر ہے جو عوام کے مسائل جانتا ہے۔ اور عوام کے دکھ درد کا احساس بھی ہے۔ مگر باوجود اس کے کھل کر حمایت نہیں کی اور غیرجانبدار رہنے کوشش کی۔ دینی جماعتوں میں جمیعت علماء اسلام(ف)سے کافی محبت تھی مگر الحمداللہ کبھی سپورٹ کرنے کا گناہ سرزد نہیں ہوا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب سے عقیدت بھی تھی چونکہ جس معاشرے میں آنکھ کھولی تھی وہاں دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگ تھے جو مولانا فضل الرحمن صاحب کو اپنے اکابرین میں شمار کرتے تھے اور مولانا صاحب کی شان کو بیان کرنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔


سال2013کے الیکشن میں خیبرپختونخواہ میں مولانا فضل الرحمن صاحب کو بدترین شکست ہوئ اور تحریک انصاف نے گورنمنٹ بنائ۔ جس وجہ سے مولانا صاحب شدید غم و غصے میں دکھائ دیے اور عمران خان صاحب کو یہودی ایجنٹ کہنا شروع کیا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے عمران خان کے خلاف کمپیئن شروع کروا دی۔ ایک طرف عمران خان کی گفتگو درست سمت پر لگتی اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمن سے چاہت اور اور ان کے عمران خان کے بارے میں الزامات بھی پریشانی کا باعث بنتے۔

 شاید اسی کانفیوژن کو دور کرنے کے لیے اللہ نے پاناما اسکینڈل اوپن کروا دیا جس کے بعد مولانا فضل الرحمن صاحب نے کھل کر نوازشریف کی حمایت کی اور مجھے بھی عمران خان کو پہچاننے میں آسانی ہوئ۔ اس دوران شریف خاندان کے کئ لوگوں کی کرپشن اور ظلم و جبر کی سٹوریوں کا مطالحہ کیا اگر کہیں تنقید کر دی جاتی نواز شریف یا زرداری صاحب کی چوری کی کوئ مثال پیش کی جاتی تو جواب میں دلیل دینے کے بجائے عمران خان کو برا بھلا کہنے شروع ہو جاتے کئ بار بتایا کہ بھائ میرا نہ تو عمران خان سے کوئ تعلق نہ میں پی ٹی آئ کا کارکن۔ مگر وہ لوگ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ بحرحال ایک چیز ضرور سمجھ آئ کہ کرمنل لیڈروں پر تنقید کرو یا ان سے اختلاف رکھو جواب میں پی ٹی آئ کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ شاید یہی جرم تحریک انصاف کا بھی ہے جو وہ انکے کرتوت عوام کے سامنے عیاں کرتی ہے۔


جوں جوں پاناما کا معاملہ طول پکڑتا گیا، مولانا فضل الرحمن نواز شریف کی چوری کا دفاع کرنے میں بہت آگے نکلے میں نے بھی مولانا فضل الرحمن کی محبت میں ان کی پالیسیوں پر اختلاف کرنا شروع کر دیا۔ مگر مولانا فضل الرحمن کے ایک چور کے دفاع کو غلط کہنا اتنا مہنگا پڑا کہ اپنے کئ رشتے داروں اور علاقہ کے معزز مذہبی طبقات نے نفرت کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اور اپنے مائنڈ سیٹ سے مجھے گستاخ علماء کی فہرست میں داخل کرنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا پیروکار بھی کہا، کئ بار وضاحت بھی کی کہ مولانا فضل الرحمن صاحب عالم دین ہیں ان کی ذات اور شخصیت کا دلی احترام کرتا ہوں۔ اگر اختلافات ہیں تو صرف یہی کہ مولانا صاحب ان چوروں کا دفاع کیوں کر رہے ہیں جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹا اور غریب عوام کے حقوق غصب کیئے۔اور عمران خان کی تعری بھی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ غریب عوام کے حقوق کے لیے کھڑے ہوۓ ہیں اور جد و جہد کر رہے ہیں۔ 

مگر مولانا فضل الرحمن کو بگوان کا درجہ دینے والوں کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آتی۔ وہ ہمیشہ اپنے اندر کا بغض نکالنے میں عافیت جانتے۔ کئ بار تحریک انصاف پر بھی تنقید کی مگر کم از کم دلائل سے عتراض کا جواب ملتا مگر جمیعت علماء اسلام کے چاہنے والے نیک لوگ مولانا کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج کر کے یہودی بنا دیتے اور جواب دینے کے بجائے عمران خان کو برا بھلا کہتے۔ یہی وہ وجہ تھی کہ (منی بدنام ہوئ ڈارلنگ تیرے لیے) میں نے بھی فیصلہ کر لیا جب سچ بولنے پر طعنہ پی ٹی آئ کا دیا جاتا ہے تو کیوں نہ حقیقت میں ہی پی ٹی آئ کو سپورٹ کر کے ان لوگوں کو مزید جلایا جائے۔


لیکن جہاں کھل کر عمران خان اور پی ٹی آئ کو سپورٹ کیا نواز شریف پر کھل کر بولا مولانا فضل الرحمن اور اس کے چاہنے والوں پر بہت ہلکا ہاتھ رکھا۔ نوازشریف کو آڑے ہاتھوں لینے کے باوجود بھی ن لیگ کے کارکنوں یعنی پٹواریوں میں وہ نفرت نہیں دیکھی جو جمیعت کے جنتی مسلمانوں میں پائ۔

2017کے آخری دنوں میں گیئر چینج کیا اور جمیعت والوں کو برائے راست ان کے اصل نام یعنی ڈیزلی سے پکارنا شروع کیا جوں ہی میرا انداز مجبورا سخت ہوا بیچارے ڈیزلی خاموش ہوتے گے۔ 


یہ تو تھا مذہبی چورن بیچنے والے میرے غیور جمیعتی ڈیزلی بھائیوں سے ہمارا رویہ اور انکے الزامات کی بدولت کھل کر پی ٹی آئ کی حمایت کا قصہ۔

مگر شاید ڈیزلی بھائیوں کی ذلت ایک نیا باب کھل چکا ہے اور اب جس سوراخ میں پنگا لیا ہے وہ اتنا ذلیل کرتے ہیں کہ بندہ جینے کے قابل نہیں رہتا۔


پہلے ڈیزلی بھائیوں کو مولانا فضل الرحمن کے عمران خان پر الزامات پر انصافیوں کے ہاتھوں صبح شام ذلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اب جنرل الیکشن 2018میں ایک بیان اور گزشتہ پرسوں سپاہ صحابہ کے خلاف بولنے پر ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم تو صرف پالیسیوں پر مودبانہ انداز سے اعتراض کرتے تھے تو اسلام سے خارج کر دیے جاتے تھے۔ اب سپاہ والے نام لے لے کر اچھی بھلی چھترول کر رہے ہیں ان پر کیا فتوہ لگاؤ گے؟ فتوے بازی میں وہ تمھارے بھی باپ ہیں۔ بہت تکلیف ہوتی ہے نا اب برداشت کرو۔ ابھی تو ذلت کے اور امتحاں بہت ہیں۔ اور آخری بات ڈیزلی بھائ عزت کے قابل نہیں ہمیشہ چھترول سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ 

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]