محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

یہود و نصاری کی مخالفت -


عن أبو أمامۃ یقول: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی مشیخۃ من الأنصار بیض لحاہم فقال: ((یا معشر الأنصار حمروا وصفروا، وخالفوا أہل الکتاب)). قال: فقلنا: یا رسول اللّٰہ، إن أہل الکتاب یتسرولون ولا یأتزرون فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تسرولوا وائتزروا وخالفوا أہل الکتاب. قال: فقلنا: یا رسول اللّٰہ، إن أہل الکتاب یتخففون ولا ینتعلون. قال: فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((فتخففوا وانتعلوا وخالفوا أہل الکتاب)). قال: فقلنا: یا رسول اللّٰہ إن أہل الکتاب یقصون عثانینہم ویوفرون سبالہم. قال: فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ((قصوا سبالکم ووفروا عثانینکم وخالفوا أہل الکتاب)).۱۲؂

’’ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے عمر رسیدہ اصحاب کے پاس آئے ، جن کی ڈاڑھیاں سفید تھیں۔ تو آپ نے ان سے فرمایا: اے گروہ انصار اپنی ڈاڑھیوں کو زرد اور سرخ رنگ سے رنگ لیا کرو، اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔

ابو امامہ کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اے رسول اللہ، یہ اہل کتاب صرف پاجامہ پہنتے ہیں، تہ بند نہیں باندھتے؟ آپ نے سن کر فرمایا، پاجامہ بھی پہنو اور تہ بند بھی باندھو، اور یوں اہل کتاب کی مخالفت کرو۔

کہتے ہیں ہم نے آپ سے یہ بھی پوچھا کہ اہل کتاب بند جوتے (خفین)پہنتے ہیں، لیکن چپل نہیں پہنتے؟ آپ نے فرمایا چپل بھی پہنو اور بند جوتے بھی پہنو، اور یوں اہل کتاب کی مخالفت کرو۔

کہتے ہیں ہم نے اگلی بات پوچھی کہ اہل کتاب ڈاڑھیاں کٹواتے ہیں اور مونچھیں بڑی رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تم مونچھیں پست رکھا کرو اور ڈاڑھیاں بڑھا لو، اور یوں اہل کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘

اس روایت میں ہمارے عمومی فہم سے ہٹ کر کچھ اور طرح کی مخالفت سامنے آتی ہے۔ ہمارا عمومی فہم احادیث مبارکہ کے ٹکڑوں سے بنا ہے۔ مثلاً یہ ٹکڑا کہ ’من تشبہ بقوم فہو منہم، یا خالفوا الیہود‘ وغیرہ کے جملے یہی تاثر بناتے ہیں کہ ہر صورت ان کی مخالفت کرو۔جبکہ محولہ بالا روایت میں مخالفت کچھ اور طرح کی ہے۔ الفاظ روایت پر دوبارہ نظر دوڑائیے تو آپ کو یہ بات تمام احکام میں نظر آئے گی کہ آپ مخالفت کا بھی کہہ رہے ہیں اور ساتھ ہی اہل کتاب والے عمل کے کرنے کو بھی کہہ رہے ہیں۔ مثلاً دیکھیے کہ یہود خفین پہنتے، اور چپل سے منع کرتے تھے، تو آپ نے کہا کہ خفین بھی پہنو اور چپل بھی۔ اگر ہمارے عمومی فہم والی مخالفت ہوتی تو پھرخفین پہننے سے روکتے اور صرف چپل پہننے کا کہتے۔ یہ دراصل مخصوص مخالفت ہے۔ میں اپنے ناقص علم سے جو سمجھا ہوں وہ عرض کیے دے رہا ہوں، یقیناًاس بات کا امکان ہے کہ کوئی اور پہلو بھی نکلتا ہو۔لیکن جس پہلو کوہم یہاں بیان کرنا چاہتے، اس سے آپ دیکھیں گے کہ تمام احادیث حل ہوجاتی ہیں اور نصوص کا وہ تناقض بھی زائل ہو جاتا ہے، جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔

یہود کے احبار (علما)نے بہت سے فتوے دے دے کر نئے نئے احکام دین میں اپنی طرف سے داخل کر دیے ہوئے تھے، جنھیں قرآن ’افترا علی اللّٰہ‘ قرار دیتا ہے۔مندرجہ بالا روایت میں انھی کی کچھ مثالیں زیر بحث آئی ہیں۔ یعنی وہ بالوں کو رنگنے، چپل پہننے اور تہ بند باندھنے کو دینی معنی میں ممنوع کہتے تھے۔ یہ حرمتیں انھوں نے دین میں خود افترا کرکے ڈال دی تھی ۔ آپ نے انھی بدعات کی مخالفت کو اہل کتاب کی مخالفت قرار دیا ہے۔ نہ چپل پہننا حرام تھا اور نہ بند جوتے۔ اس لیے آپ نے دونوں کو جائز قرار دیا اور فرمایا یوں بھی کرو او ر یوں بھی۔دونوں کام کرنے کو یہود کی مخالفت قرار دیا ، حالانکہ اس میں یہود کی مخالفت بھی تھی اور موافقت بھی۔یعنی یہود کے ایک چیز کو حلال اور دوسری کو حرام کہنے کے اس فتوے کی مخالفت کرو۔ مراد یہ کہ جس چیز کو وہ افترا کے طریقے پر دین بنا رہے ہیں اسے دین نہ بناؤ۔

حدیث کے ٹکڑوں سے جو مخالفت سمجھ میں آرہی تھی ، اس سے یہ بہت مختلف مخالفت ہے۔ آپ نے اس فتویٰ کی مخالفت کا حکم دیا ہے، جس نے ایک جائز چیز کو ناجائز اور ایک مباح چیز کو مستحب بنا دیا تھا۔ ۱۳؂ علما و احبار کا یہی وہ طرز عمل ہے جو اصرو اغلال پیدا کرتا ہے، نبی آخر الزماں اسی اصر و اغلال سے دین کو پاک کرنے آئے تھے۔ سو اس حدیث میں اور اہل کتاب اور مجوس کی مخالفت کی تمام روایات میں جو مخالفت کا حکم ہے، وہ دراصل لباس اور ظاہر ی چیزوں کی مخالفت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ ان فتووں کی مخالفت کا حکم ہے جو نصوص کے بغیر اہل کتاب نے دے رکھے تھے۔ گویا یہود کی مخالفت کا مطلب یہ ہوا کہ جن چیزوں کو انھوں نے اپنے فتووں سے دین بنا رکھا ہے، اسے دین نہ سمجھو۔

بدعات یہود سے بچنے کی ایک اور مثال جنازہ کے آنے پر کھڑے ہونا ہے۔

عن عبادۃ بن الصامت، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقوم فی الجنازۃ حتی توضع فی اللحد، فمر بہ حبرٌ من الیہود، فقال: ہکذا نفعل، فجلس النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال: ((اجلسوا خالفوہم)). (سنن ابی داؤد، رقم۳۱۷۶)

’’عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنازے میں میت کو قبر میں اتارنے تک کھڑے رہتے تھے۔ تو ایک یہودی عالم پاس سے گزرا، تو اس نے کہا کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، تو اس کے ایسا کہنے پر آپ بیٹھ گئے۔ صحابہ سے بھی فرمایا کہ ان کی مخالفت کی غرض سے بیٹھ جاؤ۔‘‘

یہاں بھی دیکھیے کہ آپ جنازے پر کھڑے تھے کہ یہودی عالم دین کے کہنے سے یہ چیز سامنے آئی کہ یہ ان کا خودساختہ دینی عمل ہے۔ لہٰذا آپ نے یہ بتانے کے لیے کہ جنازے میں بیٹھا بھی جا سکتا ہے، آپ خود بھی بیٹھ گئے اور دوسروں کو بھی بیٹھنے کے لیے کہا۔ پاکستا ن میں ہماری امت میں یہ عمل اسی طرح جاری ہے، لوگ نہ جنازہ و تدفین میں کھڑے رہنے کو حرام سمجھتے ہیں نہ واجب۔ یہ بھی اس بات کی مثال ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور میں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیا ہے، جس میں انھوں نے اپنے فتووں سے خود ہی حرام و حلال یا مندوب و مستحب کی قسم کے اعمال وافعال مقررکررکھے تھے۔قرآن میں نبی اکرم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ان بدعات کا قلع قمع کرنے آئے تھے۔درج بالا حدیث میں خفین و نعلین، زرد اور سفید لباس، ڈاڑھی کا چھوٹا بڑا ہونا سب دائرۂ مباحات کی چیزیں تھیں جنھیں یہود نے مذہبی رنگ دے رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اس مذہبی رنگ کو ختم کر کے دوبارہ دائرۂ مباحات کی چیز بنادیا ، تاکہ اصرو اغلال زائل ہو اور یہود کی بدعات کا قلع قمع ہو۔

یہ چند مثالیں تھیں، جن میں احادیث کو روات یا محدثین نے بیان کرتے وقت اجزا میں بانٹ دیا ہے جس سے ان کا مضمون بالکل بدل کررہ گیاہے۔ پھر کچھ فقہی اور دینی مسائل پیدا ہوگئے ۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہر حدیث کے فہم کے وقت اس کے مکمل ترین متن کو تلاش کیا جائے ۔ اس لیے فقہی ترتیب کی کتب بھی مدد دے سکتی ہیں، لیکن مسند قسم کی کتابیں زیادہ مفید مطلب ہوں گی، کیونکہ ان میں حدیثیں مضمون کے تحت نہیں، بلکہ راوی کے تحت لائی جاتی ہیں، جس سے مکمل متن کے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]