پاکستان عصر حاضر میں جن خوفناک اور اندوہناک سیاسی اور قومی منجدھار میںپھنساہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمیں قرآن و سنت کی امداد کی ضرورت ہے اور قیام پاکستان کے جذبات کو مکمل طور پر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتاانہی اہم ترین مقاصد کے حصول کے لئے نظریہ پاکستان کو دوبارہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، اکثر و بیشتر دانشوران نظریہ پاکستان کی تفہیم میں ڈنڈی مار جاتے ہیں جو کسی بھی طرح قومی ترقی اور عروج کا باعث نہیں بن سکتا۔ایک طویل عرصے تک قومی اور علمی سطح پر جملہ مفکرین اس پریشانی میں مبتلا رہے کہ نظریہ پاکستان کیا ہے ؟اس کے درست و اصل مفاہیم کیا ہیں؟ تحریک پاکستان کے تاریخی اور سیاسی احوال کی روشنی میں نظریہ پاکستان کس طرح معرضِ وجود میں آیا اس کے اصل مقاصد و مصادر کیا ہیں ؟قومی اور غیر قومی اخبارات و رسائل میں نظریہ پاکستان کے باب میں تشکیک اور غلط فہمیاں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔جس کا لازمی نتیجہ نوجوان نسل کے ذہنوں کے پراگندہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے اسی نوجوان نسل نے پاکستان کو ترقی کی راہوں پر ڈالنا تھا لیکن اب یہی نوجوان نسل جو نظریہ پاکستان کے حقیقی مطالب و مفاہیم سے نا ٓشنا ہے پاکستان کی بنیاد سے ہی نفرت کرتی ہے کیونکہ آئے دن اسے یہی کچھ میڈیا میں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے دوسری طرف اچھے خاصے صاحبان دانش نے نظریہ پاکستان کے مطالب کو گڈ مڈ کر کے رکھ دیا اور قائد اعظم ، علامہ اقبال ، تحریک پاکستان اورتخلیق پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف اپنے بغض کاظہار کرتے ہیں جس کے باعث بالخصوص نظریہ پاکستان کے بنیادی اور اصولی تقاضوں کو کاری ضرب لگتی رہی ان ناپسندیدہ نظریات کے نسل نو پرانتہائی زہریلے اثرات مرتب ہوئے۔وہ نسل نو جس نے نہ تو پاکستان بنتے دیکھا نہ ہی ہندو قوم کے ساتھ پالا پڑا ، جنہیں ان کے بزرگوںنے بھی جملہ زندگی کی مصروفیات سے وقت نکال کر پاکستان کے اسباب و علل سے آگاہ نہیںکیا، تعلیمی اداروں میں جو علم پہنچایا جا تاہے ، چند ایک قومی اداروں کے سوا یا چند ایک شخصیات کے علاوہ خالص پاکستانیت کے جذبات و احساسات کا علم باہم نہیں پہنچایا گیا عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں جتنے علوم ،خواہ وہ سائنسی ہوں، معاشرتی ہوں یا اقتصادی، نظریہ پاکستان اورتخلیق پاکستان کا علم ان سب میں سے مفقود ہے۔وقت گزاری کے لئے میٹرک ، ایف اے ، بی اے، میں مطالعہ پاکستان کولازمی مضمون کے طور پر منظور تو کیا گیا ، لیکن اس کا حشر جو ہمارے تعلیمی اداروں میں ہوا یا ہو رہا ہے وہ یوں ہے کہ مطالعہ پاکستان کو کوئی اہمیت نہ دی گئی ، اساتذہ کرام کی اس ضمن میں تربیت کی گئی نہ ہی مطالعہ پاکستان کو ایک مخصوص جذبے ، اور لگن کے ساتھ پڑھایا گیا۔چناچہ تخلیق پاکستان کے بنیادی عناصر ہنوز تشنہ تکمیل ہیں ، اور یہ قومی سطح پر ابھی تک لمحہ فکریہ ہے۔علم و عقل میں اگر تضاد رہے گاتو ظاہر ہے اس نوعِ انسانی میں تخریب کا باعث بنے گا اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔نظریہ پاکستان کا آغاز گو کہ ہندوستان میںہوا لیکن یہ نظریہ ابتدائے آفرینش سے اپنی تمام تر جلوہ آرائیوںسے موجود رہا ۔اسلامی نقطہ نظر سے نظریہ پاکستان کا آغاز ، تشکیل و ترویج برصغیر میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشارو افتراق اور زوال و انحطاط کا سامنا کرنا پڑا اور ہندووںکی اصل فطرت کا سامنا کرنا پڑا، ان کی گھناونی سازشوں اور مظالم کا مقابلہ کرنا پڑا ۔بالخصوص 1857کے بعد تو حالات ناقابل بیان ہیں ۔تو مسلمانوں کو یہ خیال جاگزیں ہوا کہ ہم ہندووں کے ساتھ ہر گز اکھٹے نہیںرہ سکتے، یہی خیال ایک نظریہ بن کر اٹل حقیقت بن کر کھڑا ہوگیا۔اسی نظریے کی قوت کا اندازہ کیجئے کہ ہم نے بغیر کسی جنگ کے ذہنی طاقت کے بل بوتے پہ پاکستان حاصل کرلیا اور ہم نے ثابت کر دکھایا کہ ہم سچے تھے اور ہمارا مقصد بھی سچا تھا پاکستان اب ایک اٹل حقیقت ہے اسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ایسا پاکستان جس کی دیواریںکچے دھاگے سے نہیں بلکہ لا الہ الا اللہ کے اسلامی اور قرآنی نظریے اور ایمان پر قائم ہیں اور تا قیامت قائم رہیںگے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے بر عظیم پاک و ہند کی تاریخ کوایک تاریخ ساز مختصر جملے میں یوں بیان کیا تھا کہ پاکستان صدیوں سے قائم ہے اور صدیوں تک قائم رہے گا اور جس روز پہلے مسلمان نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا پاکستان اسی روز معرض وجود میںآگیا تھا ۔اب اگر قائد اعظم ؒ کے اس تاریخی جملے کو تاریخ کی روشنی میں پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ برعظیم میں اسلام کی روشنی پھیلانے کاسہرا ان مسلمانوں کے سر ہے جنہوں نے تجارت کی غرض سے اس سر زمین پر قدم رکھا، ظاہر ہے ان مٹھی بھر مسلمان توجروں اور ان کے اہل خانہ کے نام عبداللہ ، عبدالرحمن ، محمد علی ہی ہوں گے ، نہ کہ ششی کپور، سکسینہ ،، چندت کانت وغیرہ پہلے گروپ کے نام اپنی نسبت ایک خاص سمت میں سفر کر رہے ہیں جبکہ دوسرا گروپ کسی دوسری طرف ،صاف نظر آرہا ہے کہ ان دونوں گروپوں کا مطمح نظر اور زاویہ نگاہ و سوچ اور زندگی کے تصور میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے پہلا گروپ اپنی نسبت اللہ رب العالمین سے جوڑ رہا ہے جس کی اپنی ایک تہذیب و ثقافت ہے جبکہ دوسرا بتوں کی طرف ۔ اپنی نسبت کر رہا ہے جس کی اپنی ایک ثقافت ہے تو یہ دونوں ایک قوم کیسے ہو گئے یہی فرق بعد ازاں پاکستان کی بنیاد بنا ۔
مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں