محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]







کورٹ میرج کی نوبت کب آتی ہے

کورٹ میرج کو تقریبا" کثرت سے ہر معاشرہ ناپسند کرتا ہے لیکن اس کے اطلاق میں کافی خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے
بڑےبڑےعزت دار گھرانوں کی لڑکیاں گھر سےفرار ہوئیں اور کورٹ کےسہارے شادی کےبندھن میں بندھ گیں
اصل وجوہات کیا ہیں_
جب لڑکی لڑکا بالغ ہو جائیں تو فطرتی طور پر انہیں لائف پارٹنر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نوجوان لڑکےلڑکیاں دل میں کسی نہ کسی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں کئ بار یہ سوچ تمنا سینےمیں قید رہ جاتی ہے اور کئ دفعہ اس سوچ کا اظہار بھی کر دیا جاتا ہے
جب اظہار کردیا جاۓ تو دوسری جانب سےگرین سگنل ملنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاہد بات بن گی
مگر یہ تو سالا عشق ہے آزمائشوں بغیر کہاں منزل تک پہنچنےدیتا ہے
ساغرصدیقی نےکیاخوب کہا
آسانی سےجو مل جاۓ وہ قسمت کاساتھ ہےساغر
سولی پر چڑھ کر بھی جو نہ ملےاسےمحبت کہتے ہیں

اب بات ملاقاتوں تک جاتی ہیں قربتیں بڑھتی جاتی ہیں محبت کی شدت کا درجہ حرات100تک پہنچ جاتا ہے واپسی کا تصور  بھی نہیں کیا جا سکتا جب لڑکی لڑکےکےمابین قسمیں وعدےجینامرنا ایک ہر عہد نبھانے کے ہو جاتے ہیں
منزل قریب نظر آتی ہے تو انکے والدین راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں اگرچہ لڑکا تو منوا لیتا ہے اپنےپیرنٹس کو مگر لڑکی کے لیے آج کےاس معاشرےمیں اول تو بولنا ہیں دشوار ہوتا ہے اگر بول بھی جاۓ تو اسے یقین ہوتا ہے نتیجہ الٹا ہی آۓ گا ایسے میں لڑکی پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں گھرسےباہر جانا سہیلیوں سےملنا موبائیل فون کا استعمال وغیرہ وغیرہ

ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے یہاں پر

جو والدین اپنےلڑکے سے تو اس کی راۓ لیتے ہیں
مگر
ان کی بیٹی اپنی پسند کا اظہار کر دے تو اسےکنجری نافرمان کہہ کر کسی بھی مرد سے شادی کر دیتے ہیں اور وہ اپنےارمانوں کا خون برداشت کرلیتی ہے یہ سوچ کر کہ والدین کی عزت کا سوال ہے
کیا غیرت صرف بیٹی کی پسند  پر جاگتی ہےبیٹے کی پسند پر خوشی بیٹی کی پسند پر ماتم یہ کھلا تضاد نہیں
اور جب پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں تو وہ عاشق کسی نہ کسی طرح فون پر بات کرتے ہیں ملاقاتیں ہوتی ہیں چوری چھپے
پابندی اس محبت کا مزہ دوبالا کر دیتی ہیں اک دوسرے کی چاہت مزید بڑھتی ہے
جب جب پیار پر لگاہےپہرہ
پیار اور   بھی ہوا  ہے گہرہ
اورجب حالات سنبھل نہ پائیں تو پھر  مجبورا" کورٹ کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ نہ صرف معاشرے میں غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے بلکہ اک خطرناک اور جان لیوا بھی ہے
کورٹ میرج کی وجہ سے کئ جانیں ضائع ہو چکی ہیں
دو خاندانوں میں دشمنیاں پیدا ہو جاتی ہیں
اور بعض اوقات یہ دشمنیاں آگےکئ نسلوں تک جاتی ہیں لوگوں کو اس بات کاپتا بھی نہیں ہوتا کہ دراصل دشمنی ہے کس بنا کر بس سنا ہے کہ دشمنی ہے
یا پھر کوئ بزرگ بتا دےکہ تمھارے والد کےپردادا کی بیٹی کو فلاں خاندان کا فلاں شخص کورٹ میرج کرکےلےگیا تھا اس لیےدشمنی ہے مگر بزرگ یہ نہیں بتاۓ گا کہ دشمنی کی اصل وجہ تمھارے والد کےپردادا کا رشتے سےانکار کی وجہ بنی
اگر وہ اس وقت اس رشتےکو قبول کرلیتے تو آج بجاۓ نفرت و دشمنی کے محبت کےچراغ جلاۓ جاتے
جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو ذہن میں کئ پہلو گردش کرتے ہیں مگر سب کچھ لکھنا بہت مشکل ہے

خدارا بیٹی کی پسند کا بیٹی کی راۓ کابھی اتنا ہی احترام کرو جتنا بیٹے کی پسند کا کرتے ہو
ایک باپ جو اپنےبیٹے کی پسند کو اسے دلوانے کےلیےکوئ بھی حد پار کرنے کو تیار ہو جاتا ہے وہ بیٹی کی پسند پر آگ بگولہ کیوں ہو جاتا ہے
بیٹی کی راۓ کو بھی اہمیت دو وہ بھی انسان ہے کوئ کانچ کی گڑیا نہیں اس کے سینےمیں بھی دل دھڑکتا ہے اسےبھی تکلیف ہوتی ہے

کتنے عجب لوگ ہیں تیرے شہر کے
قتل کرکےپوچھتے ہیں جنازہ کس کا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]