سانحہ سکوت ڈھاکہ کیوں اور کیسے ہوا داستان تو بہت طویل ہے لیکن اسے زیادہ طویل نا کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
سب سے پہلے یہ بات جان لیجیے کہ سکوت ڈھاکہ بپہ کرنے والے 4 کردار ہیں
1۔ پاکستانی صدر فوجی جنرل یحیٰی
2۔ ذوالفقار بھٹو
3۔ شیخ مجیب الرحمن
4۔ انڈیا۔
اگر چند لفظوں میں سکوت ڈھاکہ کو بیان کرنا ہو تو اسے انڈیا کی سازش
شیخ مجیب الرحمٰن کی خباثت
جنرل یحیٰی کی حماقت
اور ذوالفقار بھٹو کی اقتدار حاصل کرنے کی شرارت کہا جائے گا۔
سکوت ڈھاکہ ہوا تو 1971 میں تھا لیکن اس کی بنیاد 1947 میں پاکستان بنتے ہی انڈیا نے رکھ دی تھی
شیخ مجیب الرحمٰن نے 1947ء میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا شروع کردی
جس سے صاف ظاہر تھا کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کے بجائے بنگالی قومیت کا علمبردار تھا اور اس نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔
اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کیا جا سکتا تھا۔ 1952ء میں جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ قائم کی تو شیخ مجیب الرحمن نے اُس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ 1956ء میں آئین کی تیاری میں بھی اُس نے حصہ لیا لیکن اس آئین میں صوبائی خود مختاری کی جو حدود مقرر کی گئی تھیں شیخ مجیب الرحمن اس سے متفق نہیں تھے
یاد رہے 1965 پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے زریعے مشرقی پاکستان کو علیدہ کرنے کی سازشیں تیز کردیں تھی
شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء میں پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں چھ نکات پیش کیے
#شیخ_مجیب_کی_خباثت 👇👇👇
شیخ مجیب کے خباثت بھرے چھ نکات کونسے تھے ملاحظہ فرمائیں۔
۔1۔ قرار داد لاہور کی روح کے مطابق آئین سازی کی جائے۔
۔2۔ وفاق کے پاس صرف دفاع اور خارجہ امورکے
محکمے ہوں باقی معاملات وفاقی اکائیوں کے سپرد کئے جائیں۔
۔3۔ جداگانہ مالی پالیسی اختیار کی جائے اور مشرقی پاکستان کی کرنسی الگ ہو
۔4۔ وفاق کو ٹیکس لگانے اور آمدن جمع کرنیکااختیار نہیں ہوناچاہیے۔
۔5۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے تجارتی حسابات علیحدہ علیحدہ ہوں۔
۔6۔ مشرقی پاکستان کو اپنے نیم فوجی دستے رکھنے کا مکمل اختیار ہوناچاہیے۔
یہ ہیں وہ 6 نکات جو شیخ مجیب کی خباثت بھری سوچ کی اکاسی کرتے ہیں
جسے سن کر ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں یہ کہا تھا کہ میں ان پاکستان کے چھ ڈیتھ وارنٹ پر دستخط نہیں کرسکتا۔
خیر آگے چلتے ہیں👇👇
شیخ مجیب 1970 کے الیکشن میں مشرقی پاکستان سے بھاری منڈیت سے منتخب ہوئے اور مسلم لیگ کی صرف دو ہی سیٹیں سامنے آئی
باقی تمام سیٹیں شیخ مجیب کی پارٹی عوامی لیگ نے جیت لی جس پر فوجی صدر جنرل نے شیخ مجیب کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک باد بھی دی تھی
شیخ مجیب نے الیکشن جیتتے ہی پاکستان کا آئین اسی چھ نکات کی بنیاد پر بنانے کا اعلان کیا جس کا مطلب پاکستان کے چھ ٹکڑے کرنا تھا۔
یہ تو تھا شیخ مجیب جو کبھی پاکستانی تھا ہی نہیں اب بات کرلیتے ہیں اپنوں کی
#جنرل_یحی_کی_حماقت
جب فوجی صدر جنرل یحییٰ نے یہ اعلان سنا تو جنرل یحی نے بھٹو کے ساتھ مشاورت کی اس نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب ہی نہیں کیا جو جنرل یحیی ٰ کی سب سے بڑی غلطی تھی اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے
تاریخ سازوں اور دانشوروں کے نزدیک اجلاس لازمی طلب کرنا چاہیے تھا تاکہ کچھ لے اور کچھ دے کی پالیسی اپنا کر شیخ مجیب کے چھ نکات میں ترمیم کی جاسکے
اگر وہ چھ نکات بنا سکتا ہے تو تم 12 نکات بنا کر دو لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہی جنرل یحی کی حماقت ہے۔
#ذوالفقار_بھٹو_کی_شرارت 👇👇
#ذولفقار_بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی جوکہ شیخ مجیب کی جماعت سے الیکشن ہار کر دوسری پوزیشن پر تھی یعنی ذوالفقار بھٹو بھی وزارت عظمی کے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے
لیکن جب ذوالفقار بھٹو نے سیاسی طور چلن دیکھا اور جنرل یحی کی حماقت پر نظر ڈالی تو ذوالفقار بھٹو کو وزارت عظمی کی کرسی کے خیالات روشن ہوئے
تو انہوں نے بھی یہ اعلان کر کے پہلی شرارت کردی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس جوکہ ڈھاکہ میں بلایا گیا تھا اس میں شرکت کرنے والے شخص کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
ذوالفقار بھٹو کا طرزعمل جمہوری سوچ سے بلکل برعکس نکلا۔
ذولفقار بھٹو کے اقتدار حاصل کرنے کی یہی شرارت تھی جس نے جنرل یحی کی حماقت کو طاقت دی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔
1970 الیکشن کے نتائج 👇👇
1970 میں جب پاکستان کے عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 162 امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 160 کامیاب ہوئے، یہ ایک ناقابل یقین نتیجہ تھا۔
عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے ایک بھی سیٹ نہیں جیتی تھی دوسری طرف بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں 81 سیٹیں جیت کر مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی تھی
مگر مشرقی پاکستان سے اُنکی بھی کوئی نمائیدگی نہیں تھی۔
یعنی شیخ مجیب نمایا اکثریت حاصل کرچکے تھے۔
ذوالفقار بھٹو کی دوسری شرارت👇👇
فروری 1971 کو ذوالفقار بھٹو نے لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے دوسری شرارت یہ کہ کر رچا دی کہ
مشرق میں ہماری کوئی نمائندگی نہیں اور مغرب میں آپ کی کوئی نمائندگی نہیں۔ لہذا
"#ادھرتم #ادھرہم"
ذوالفقار بھٹو کی تیسری شرارت
ذوالفقار بھٹو نے ایک اور شرارت یہ کہ کر رچا دی کہ آپ ہمارے بغیر نہیں چل سکتے لہذا ہم سے مزاکرت کرو۔
یہ مزاکرات ڈھاکہ میں ہوئے جوکہ کامیاب نا ہوسکے
یہ آخری شرارت تھی
لیکن اس شرارت نے خون کی ندیاں بہا دی
سکوت ڈھاکہ میں ذوالفقار بھٹو صاحب کا کردار دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ بھٹو صاحب چاہتے ہی یہ تھے جو ہوچکا ہے۔
مارچ 1971ء میں شیخ مجیب نے عدم تعاون کی تحریک شروع کردی جوکہ تاریخ سازوں اور دانشوروں کے نزدیک بلکل جائز ہے
ذوالفقار بھٹو جوکہ اس تحریک سے اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہے تھے تو جنرل یحی نے ذوالفقار بھٹو کی مشاورت سے فوجی ایکشن کیا جس میں متوقع وزیراعظم شیخ مجیب کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان لایا گیا
آگے کیا ہوا یہ میں دکھا تو نہیں سکتا لیکن اپنے بزرگوں کو جب یہ قصہ سناتے دیکھتا ہوں تو ان کے منہ سے خون ٹپکتا ہے۔
#انڈیا_کی_سازش
ذولفقار بھٹو کے ایما پر کئے ہوئے جنرل یحی کے مشرقی پاکستان کے ایکشن پر بھارت نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرحد کھول دیں
اور ہزاروں بنگالیوں کو اپنے ہاں پناہ دیکر مکتی باہنی کے نام سے اپنے تربیت یافتہ گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں کے زریعے عسکری کاروائیاں شروع کردی
اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر کا قتل عام کیا۔
یاد رہے مارچ 1970ء سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا۔
چودہ ستمبر 1971ء کو بھارت کھل کر سامنے آیا اور اس نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔
بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا
سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک اہم کردار سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا ہے۔
دہلی میں ہندوں نے ایک ایک مسلمان کو پکڑ کر زبردستی ان کے منہ میں مٹھائی ڈالی
اس مٹھای کو کھانے والے مسلمان منہ چھپاتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
یہ ایک بین القوامی سازش تھی مگر یہ سازش اس وجہ سے کامیاب ہوئی کہ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اقتدار حاصل کرنے کی سازشوں میں مصروف رہے۔
یہ ایسا دردناک واقعہ ہے کہ جس قدر اسکے بارے میں سوچو اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے۔
مگرافسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے مادر وطن کے دو ٹکڑے ہوجانے والے اس سانحے سے آج بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
آج بھی ہمارے حکمران اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے موروثی سیاست کرتے ہیں قوم پرستی اور صوبائیت پھیلا کر اقتدار حاصل کرتے ہیں۔
#نوازشریف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر پنجابیوں کا خون گرماتا ہے
#آصف_زرداری مرسو مرسو سندھ نا ڈیسو کہ کر سندھیوں میں نفرتیں بھرتا ہے۔
#محمودخان_اچکزئی بلوچ کارڈ کھیل کر پنجاب کے خلاف نفرت اگل کر اقتدار حاصل کرتا ہے
#اسفند_یار_ولی پشتونوں کو بھڑکا کر اقتدار میں آجاتا ہے
مولانا فضل الرحمن اسلامی کارڈ کھیل کر اقتدار خود پر حلال کر لیتا ہے۔
#ایم_کیو_ایم مہاجریت کا رونا رو کر اقتدار بٹور لیتی ہے۔
لیکن
تاریخ گواہ ہے صرف ایک عمران خان ہی ہے جس نے آج تک کوئی کارڈ نہیں کھیلا اور نا ہی صوبائیت پھیلا کر اقتدار حاصل کیا۔
پاکستانیوں اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ایک اور سکوت ڈھاکہ کے لیے تیار ہوجاو
آج بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنے سازشیں عروج پر ہیں آج منظور پشتین کی شکل میں PTM جیسی تحریک بھی عروج پر ہے۔
اپنی آنکھیں کھولو اور ان سازشوں کا مقابلہ کرو ورنہ تمہاری داستان نا ہوگی داستانوں میں۔
محمد فیصل شاہین
مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
Nice information.
جواب دیںحذف کریںRegards!