نظریہ پاکستان کو کون نہیں جانتا، آسان لفظوں میں نظریہ پاکستان کو یوں بیان کیا جاتا ہے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ
کہنے کو تو یہ الفاظ بہت اچھا ہے مگر اس کی گہرائ میں جائیں تو ہم پر کئ پابندیاں عائد ہوتی ہیں، خیر اس کی تشریح ضروری نہیں آگے بڑھتے ہیں۔
پاکستان بننے سے قبل یا کہ آج بھی ہندوستان میں مسلمان اپنی مذہبی آزادی میں پابند نہیں صوم صلوۃ عبادت گاہیں آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔
پاکستان کا بنیادی مقصد یہ تھا ایک ایسی ریاست بنائ جاۓ جو مکمل طور پر خودمختار اور اسلامی قوانین کے تابع ہو اور اس ریاست سے دنیا بھر میں اسلام کو پھیلایا جاۓ۔ روٹی کپڑا مکان روزگار اس ایجنڈے کا بنیادی مقصد ہر گز نہیں تھا۔ قائد کے کئ فرمان آج بھی موجود ہیں جن میں انہوں نے پاکستان کو اسلام کی تبلیغ کے مرکز کے لیے ایک تجربہ گاہ بنانے کی بات کی۔
پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ محمداقبال تھے، اور اس خواب کی تعبیر پر عمل پیرا ہونے والے مسٹر جناح تھے۔ علامہ اقبال اگرچہ داڑھی شیو کرتے تھے مگر علمی و ادبی لحاظ سے برصغیرپاک و ہند میں ان کا کوئ ثانی نہ تھا، اور عشق رسولﷺ میں بھی ان کی شخصیت بے مثال تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ آج علامہ بھی لکھا جاتا ہے۔ اور ان کے لکھے اشعار آج مسلمانوں کی مساجد و مدارس کے ممبر و محراب سے گونجتے ہیں، اور انہیں شاعر مشرق کا لقب بھی ملا ہے۔
اگر بات کی جاۓ قائداعظم محمد علی جناح کی تو مسٹر جناح کوئ علامہ نہ تھے اور نہ ہی ان کے چہرے پر سنت رسولﷺ یعنی داڑھی تھی البتہ اسلام اور علماء اکرام سے محبت و الفت کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔
تحریک پاکستان میں جہاں پر مسلمانوں اور علماء اکرام کی اکثریت نے مسٹر جناح کا ساتھ دیا وہاں کئ بڑے نام کے علماء نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی قائداعظم محمد علی جناح کو انگریز کا ایجنڈ، اور کافر اعظم تک کے القابات سے نوازا بحرحال اقبال کا خواب بھی پورا ہوا قائداعظم اور اس کے ساتھیوں کی محنت بھی رنگ لائ پاکستان حاصل کر لیا گیا۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں اور علماء اکرام نے جو جانوں کے نظرانے پیش کیئے یہ ایک الگ عنوان ہے۔ پاکستان بن گیا اور ایک سال بعد بانی پاکستان مسٹر جناح دنیا فانی سے کوچ کر گے۔ یہاں پر میں قائداعظم کی خراب ایمبولینس کا ذکر بالکل نہیں کروں گا میں نہیں چاہتا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آئیں۔
یہ تو تھی تحریک پاکستان سے پاکستان بننے تک کی کہانی، اب پاکستان پر مسلط حکمرانوں کو نظریہ بھول گیا اور طویل اقتدار کی خواہش نے حکمران طبقے کے دل اپنی طرف مائل کر لیے اسی کشمکش میں بانی پاکستان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کی بدترین توہین و تذلیل کی جاتی ہے کہ قائد کی روح بھی تڑپ اٹھتی ہے۔
اقتدار کی چھینا چھپٹی میں وطن عزیز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے، مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو جاتا ہے۔ مگر مجال ہے اہل اقتدار کے کانوں پر جوں تک رہینگے۔ اب تو رہے سہے پاکستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اہل اقتدار نے لوٹنا شروع کیا۔
مہنگائ، بےروزگاری کا ایسا طوفان کھڑا کیا گیا، کہ نظریہ پاکستان کو یاد کرنا چیلنج بن گیا، ہر شخص روزی روٹی کے چکر میں پڑ گیا،،، کئ بار اقتدار کی باگ ڈور سویلین اور کئ بار دفاعی اداروں نے سنبھالی۔ نظریہ پاکستان کسی بھی دور حکومت کو یاد نہ آیا اب اقتدار کی ہوس نے اس قدر لیڈران پاکستان کو اپنا دیوانہ بنایا کہ حصول اقتدار کے لیے بین الاقوامی دروازے بھی کھٹکھٹاۓ جانے لگے۔
جس ملک کو اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے بنایا تھا، اس ملک کے اداروں کے اندر اسلام سے متنفر افراد نے بھی خوب جگہ بنائ پھر آزادی کے متوالے اسلام بیزار میڈیا نے ملک و ملت کو ایسا قبضے میں لیا کہ پاکستان کا نظریہ پاکستان اور فلاحی ریاست کا سفر یوٹرن لے کر سیکولر پاکستان کی طرف گامزن ہو گیا۔
حالات یہاں تک پہنچ گے کہ نظریہ پاکستان اور نفاذ اسلام کی بات کرنا جرم بن گیا۔ ہم نے دیکھا کہ میڈیا کی پھرتی اور بین الاقوامی منشاء پر نفاذ اسلام اور شرعی قانون کی بات کرنے والوں پر فارس فورس بم برساۓ گے۔
دوسری طرف پڑوسی ملک کے تعاون سے ملک میں اسلام کے نام پر ایسی خفیہ فورسز تیار کی گئ جو عوام کو افواج پاکستان کے خلاف بھڑکاتی اور عوامی مقامات پر خودکش حملہ کرتے۔ جسے میڈیا اسلام پسند اور نظریہ پاکستان کی بات کرنے والوں سے منسوب کر دیتا۔ اسلام پسندوں کے لیے ایک عجیب کیفیت بن چکی تھی کہ ہماری افواج درست سمت ہے یا خودکش دھماکے کرنے والے؟
بحرحال اس صورتحال کے خلاف سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایسی بنیاد رکھی کہ ہر دشمن قوت کا چہرہ بےنقاب ہوتا نظر آیا۔
مگر پاکستان کی بدقسمتی کہ ملکی سرحدوں پر پہرہ دینے والے تو اپنا حق ادا کرتے رہے مگر اقتدار کے پوجاری اپنی رویات کو بدل نہ سکے۔ لوٹ مار سے آگے بڑھ کر دفاعی اداروں کو بھی پریشرائز کرنی کی کوششیں کرتے رہے اور ملک کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں ملک کا وقار بین الاقوامی دنیا میں صفر ہو کر رہ گیا۔ اب نظریہ پاکستان کی بات تو دور سیکولر پاکستان بھی نہ بچ پایا۔ کہیں اپنوں کے دیے زخم تو کہیں غیروں کے طعنے۔
اے صنم تیرے حجر م یں ہم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے
بدن کے ٹکڑے کچھ ہوۓ ایسے کہ نہ کفن کے رہے نہ دفن کے
پاکستان کا کھا کر پاکستان سے بےوفائ کرنے والے جہاں آپ کو بےدین لوگ دکھائ دیں گے اسی صف میں نامور علماء بھی کھڑے نظر آئیں گے جو نا صرف لوٹ مار کرنے والوں کا دفاع کرتے ہیں بلکہ اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔
پاکستان کسی دور میں جمیعت علماء اسلام دین اسلام کی نمائندہ جماعت سمجھا جاتا تھا مگر کچھ اقتدار کی ہوس اس جماعت کو بھی ایسے لے ڈوبی کہ کل جو جمیعت کے متوالے ہوا کرتے تھے آج وہ بھی اس سے متنفر نظر آتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک کھلاڑی نے ملکی حالات پر رحم کھاتے ہوۓ نوجوان نسل کو بیدار کرنے کی کوشش کی جس کا نام عمران خان ہے جو آج پاکستان کا وزیراعظم ہے۔ عمران خان کا پاکستان کا قومی سٹار تھا دولت شہرت پہلے بھی ان کے پاس یقیناً تھی 1996میں پاکستان کی سیاست میں قدم رکھا اور 2018کے الیکش میں وزارت عظمی کا منصب سنبھالا سنہ2001میں عمران خان سے کسی نے سوال کیا تھا کہ خان صاحب آپ سیاست میں تو آۓ مگر آپ کو عوام نے فی الحال اس قابل نہیں سمجھا کہ آپ کو منتخب کرے۔ جواب میں عمران خان نے مسکرا کر کہا، میرا ووٹر ابھی چھوٹا ہے جب وہ بڑا ہو گیا تو نتائج آپ کو نظر آ جائیں گے۔ اور وہی ہوا اٹھارہ سال بعد جب ووٹر بالغ ہوا تو ووٹر نے عمران خان کا انتخاب کیا۔ اس واقعے سے عمران خان کی مستقل مزاجی اور اعتماد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کہ یہ شخص مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور امید کے ساتھ جدوجہد پر یقین رکھتا ہے۔
الیکشن 2013میں عمران خان نے پختونخواہ میں جمیعت اور اےاین پی کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔ جس کا صدمہ قائد ملت اسلامیہ حضرت اقدس مولانا فضل الرحمن صاحب کو ایسا ہوا کہ مکمل طور پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو گے اور عمران خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر دیا۔یہاں تاریخ نے اپنے اوراق پلٹ کر فضل الرحمن صاحب کو بتایا کہ مولانا یہ بات آج کی نہیں کل جب تحریک پاکستان چلی تھی تو تمھارے آباءواجداد نے قائداعظم کو کافراعظم اور انگریز کا ایجنٹ کہا تھا، مگر اسلام کے داعی علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع، جیسے علماء اس وقت قائداعظم کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ اور آج کروڑوں دلوں کی دھڑکن مبلغ اسلام طارق جمیل سمیت کئی جید عالم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ نہ تمھارے آباواجداد کے فتوؤں نے قائداعظم کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ آج تمھارے فتوے عمران خان کا بال بھیکا کر سکتے ہیں۔
جہاں پاکستان مافیا اور اسلام فروش ملاں کے نرغے میں پھنس کر ایک تماشا بن چکا تھا عمران خان کی قیادت نے اسی پاکستان کو آج دنیا کے سامنے پھر سے تابندہ ستارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں سپر پاور بھی ڈومور کے بجاۓ پلیز ہلپ می کی زبان بولنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
جہاں پاکستان کو سفارتی اور معاشی سطح پر کامیابیاں ملنے کے چانسز بنے وہیں پر ایک بار پھر نظریہ پاکستان پر عمل کی امیدیں بھی نظر آتی ہیں۔
جو خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا، جس کاز و مشن کے لیے جد و جہد محمدعلی جناح نے کی تھی آج اس مشن اس نظریے کی باتیں عمران خان کی زبان سے ملتی ہیں۔ مگر افسوس کہ کچھ ملاں عمران خان کی اس بات کو بھی اپنی ناپاک منافقت سے بھری چال کی نظر کر کے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی لیڈر نے اگر پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز پر بنانے کی بات کی ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اور کچھ منافقین اور اقتدار کے پوجاری اس میں بھی شکوک و شبہات پیدا کر کے قوم کو گمراہ کرنے پہ تلے ہیں۔
تم ہوتے کون ہو کسی کی نیت پہ شک کرنے والے۔ تم نے خود اسلام زندہ باد کا نعرہ لگا کر اسلام آباد کے اعوان حاصل کیئے تم نے ختم نبوتﷺ جیسے حساس ایشو پر سیاست کر کے بنک بیلنس بنایا۔ تم سے زیادہ اس قوم کا محب عمران خان ہے تم سے زیادہ اللہ کا ڈر عمران خان کے دل میں ہے۔ علم ابلیس کے پاس بھی تھا بات علم سے نہیں عمل سے بنتی ہے۔ ایک شخص بیت اللہ اور روضہ رسولﷺ میں بیٹھ کر اللہ سے توبہ کرے تمہیں اس کی نیت پر پھر بھی شک خود درسگاہوں کے کونوں میں گھس کر بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنا دو پھر بھی بخشے بخشاۓ۔ ظالموں کسی کی نیت پر شک کرنے کا سرٹیفکیٹ تمہیں دیا کس نے؟
تم اپنی خیر مناؤ بہت ہو چکا۔ انشاء اللہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان عین نظریہ پاکستان کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنے گا جہاں سے توحید و رسالتﷺ کے جھنڈے بلند ہونگے۔اور ہر منافق کا منہ کالا ہو گا۔
میں نے ٹائٹل پر یہ بھی لکھا تھا عمران خان کے ارد گرد گندی مکھیاں۔
دلوں کا حال اللہ جانے مگر بظاہر عمران خان ایک نیک نیت اور اسلام سے محبت کرنے والا لیڈر ہے۔ مگر عمران خان کے آس پاس کئ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام سے بیزار اور خود کو سیکولر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ کل اسمبلی میں شراب پر پابندی کی بل کی مخالفت پر فواد چوہدری کا تبصرہ بھی عقل والوں کے لیے نشانی ہے۔ دینی شخصیات اور علماء اکرام اگر عمران خان کے قریب تر رہنے کی کوشش کریں تو پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی صورت یقینی بن سکتی ہے۔
یو سمجھ لیجیئے عمران خان ایک گلاب کا پھول ہے اگر اس پر شہد کی مکھی بیٹھے گی تو اس کا رس چوس کر قیمتی شہد تیار کر سکتی ہے اور اگر شہد کی مکھیوں نے اس پھول کا رخ نہ کیا تو گندی مکھیاں یعنی لبرل اپنا کام جاری رکھیں گے۔
بجاۓ عمران خان کی مخالفت اور فتوہ سازی کے ایک فلاحی اسلامی ریاست کی تکمیل کے لیے عمران خان کا ساتھ دو اور اپنی علمی صلاحیتوں کا استعمال کرو۔ اسلام کے نام پر بہت دکانداری چمکا لی تم لوگوں نے اب وقت ہے عملی طور پر کام کرنے کا۔
اگلی آخری اور اہم ترین بات!!!!
ملک بھر میں مذہبی حلقوں کی جانب سے عوام الناس میں یہ بات پھیلائ جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئین پاکستان میں قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے لیے قانون سازی کرنے کی تیاری کر رہی ہے یا کرے گی۔
یاد رکھیں پارٹی سپورٹ سیاست اور ملکی مفاد تک ہے جس دن ایسی حرکت کی کوشش کی سب سے پہلے تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھ حکومتی گریبان تک پہنچیں گے۔ ناموس رسالتﷺ پر کمپرو مائز کرنا یا خاموش رہنا بےایمانی کی نشانی ہے مگر سیاسی مفاد کی خاطر ناموس رسالتﷺ کے ایشو کو چھیڑنا بھی بہت بڑی منافقت ہے۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ پی ٹی آئ میں بھی فصلی بٹیرے اور لبرل موجود ہیں۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئ تو کامیابی تب بھی نہیں ملے گی۔
بیشک ایک شخص نماز کی پابندی نہ کرے گنہگار ہو بدکار ہو مگر جب بات حرمت رسولﷺ کی آتی ہے تو میرے پیارے نبیﷺ کی سچی نبوت کا یہ معجزہ ہے کہ صدق دل سے ایک بار لاالہ الااللہ پڑھنے والا بھی حرمت رسولﷺ پر مر مٹنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
اب انشاء اللہ وہ وقت قریب ہے جب پاکستان عالم اسلام کی نمائندگی کرے گا۔ اسلام کا مضبوط قلعہ ہو گا۔ اور نظریہ پاکستان پر جانیں قربان کرنے والوں سمیت اقبال اور قائد کی روح کو تسکین پہنچاۓ گا۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
ازقلم: محمد اشرف
مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں