ہمارے وطن عزیز کے مشرقی بازو میں جب اپنوں اور غیروں کی ملی جلی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی وجہ سے حالات دن بدن بد سے بد تر ہونے شروع ہو گئے۔ جب محب وطن پاکستانیوں پر ان کے اپنے ہی دیس اور اپنے ہی علاقے اور شہر بلکہ گھروں کی زمین بھی تنگ کر دی گئی۔ جب ایک طرف ان کے اپنے ہی بظاہر بھائی بند ا ور ہم وطن ٗ دوسری طرف بھارت سے تربیت یافتہ مکتی باہنی کے مسلح غنڈے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی الگ یلغار ٗسنگینیوں ٗ رائفلوں ٗ چھریوں ٗ چاقوئوں اور لاٹھیوں وغیرہ سے مسلح ہو کر ان پر حملہ آور ہوتی۔!
اس قسم کے سنگین حالات میں اسلام اور پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا تھا۔ مگر اسلام اور پاکستان کے سپاہیوں اور وفار داروں نے سردھڑ کی بازی لگا دی۔ محب وطن افراد نے اپنے مال و متاع ٗ اولاد ٗ عزیز و اقارب حتی کہ اپنی جان بھی اسلام اور پاکستان کیلئے قربان کر دی۔ ان ہی حالات میں تحفظ ملک و ملت کیلئے سر زمین مشرقی پاکستان پر الشمس اور البدر جیسی عظیم تنظیمیں وجود میں آئیں ٗ کہ جن سے وابستہ افراد نے اسلام اور نظریہ پاکستان کے تحفظ و بقاء کے لئے وہ جنگ لڑی کہ دشمن بھی حیران و ششدر رہ گیا۔ ان تنظیموں سے وابستہ جانبازوںنے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دن رات کام کیا۔
اسلام کے یہ جانفروش مجاہد ان مقامات تک بھی جا پہنچے کہ جہاں تک پہنچنا بعض اوقات مسلح افواج کے بس کی بات بھی نہ تھا۔ انہوں نے عام شہریوں سے لے کر افواج پاکستان کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کی۔ سکولوں ٗکالجوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر شہر شہر اور گائوں گائوں تک مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے پاکستان دشمن کارکنان اور ہندوئوں سے بھی قدم قدم پر جنگ لڑی۔
ضرور پڑھیں: ایف پی سی سی آئی الیکشن2019ء ،نائب صدر کے امیدوار قربان علی کی مکمل حمایت کااعلان
اسلام اور پاکستان کے یہ وہ عظیم مجاہد اور ہیرو ہیں کہ جن کے تذکرے کے بغیر پاکستان اور خاص طور پر مشرقی پاکستان کی تاریخ کا تذکرہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اس بات کا اعتراف پاک آرمی کے افسران اور جوانوں نے بارہا کیا ہے۔
16 دسمبر 1971ء کوپاکستان کا ایک اہم حصہ یعنی مشرقی پاکستان بھارتی جارحیت کے نتیجے میں الگ ہو گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے ان تمام المناک اور روح فرسا واقعات و حالات میں اپنوں نے کیا کردار ادا کیا؟ اور غیروں کا حصہ کیا تھا؟ اور پھر بین الاقوامی سطح پر اس کیلئے کہاں کہاں اور کیا کچھ سازشوں کے تانے بانے بنے گئے؟ یہ ایک الگ داستان ہے ٗ اس سارے سانحے اور سازش کے متعلق بہت سے پہلو اب تک سامنے آ چکے ہیں اور مزید بھی آئندہ واشگاف ہوتے رہیں گے۔ بہرحال یہ تمام واقعات اب تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں اور مستقبل کا مورخ کسی کے ساتھ کوئی رو رعایت کئے بغیر اپنے غیر جانبدار قلم سے تاریخ رقم کر دے گا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہزاروں اور لاکھوں محب وطن پاکستانی باشندے طرح طرح کی مصیبتیں اٹھانے کے بعد مغربی پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے۔ جو کہ اب صرف ’’پاکستان‘‘ رہ گیا تھا۔ یہ قافلے آتے رہے اور پاکستان کے وسیع دامن میں سماتے رہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑی تھی ٗ ان کا مرنا اور جینا صرف اور صرف پاکستان کے لئے تھا۔ ان کی منزل مقصود پاکستان تھا۔ وہ اول و آخر پاکستانی تھے۔ پاکستان کی سر زمین سے انہیں جو محبت تھی ٗ اسی محبت کا یہ تقاضا تھا کہ وہ پاکستان کی آن پر اپنی جان قربان کر دیں ۔ پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے والوں کی آنکھیں پھوڑ دیں ۔ پاکستان کے خلاف اٹھنے والے ہاتھ کو روک دیں اور پاکستان کے خلاف چلنے والی زبان کو بند کردیں اور پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کاقلع قمع کریں۔ اس میں اپنے اور بیگانے کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ملک اور دین کے غداروں اور دشمنوں سے کوئی رعایت نہیں ہو سکتی۔
وہ جن کے دل پاکستان کے نام پر دھڑکتے تھے۔ جب ان سے ان کا پیارا وطن چھین لیا گیا ٗ جب ان کے گھروں کو جلا دیا گیا ٗجب ان کے ننھے ننھے معصوم جگر گوشوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے تکہ بوٹی کیا گیا‘جب ان کی مائوں ٗ بہنوں اور بیٹیوں کی خونخوار ہندوئوں اور ظالم مکتی باہنی کے غنڈوں نے بے حرمتی کی۔ جب ان پاکستانیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا۔ جب ان کیلئے جائے پناہ کیمپ ٹھہرے۔ تو پھر بتائیے کہ ان لٹے پٹے قافلوں کا رخ کس طرح ہونا چاہئیے تھا۔ ان کی منزل مقصود کیا اور کہاں ہو سکتی تھی؟ ان کی بے چین اور بے قرار روحوں کو کہاں پہنچ کر سکون اور اطمینان حاصل ہو سکتا تھا۔ یقینا ہر شخص پکار پکار کر کہے گا کہ …’’پاکستان‘‘ اور صرف ’’پاکستان‘‘ ۔۔۔۔ جتنے افراد اور خاندان پاک سر زمین پر پہنچ گئے ۔ انہوں نے سکون کا سانس لیا اور اللہ رب العالمین کا شکر بجا لائے۔ اب یہاں ان کا دین و ایمان بھی محفوظ تھا اور مال و جان اور عزت و آبرو بھی۔
ضرور پڑھیں: اساتذہ کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے، جاوید اقبال
میں اس وقت جس مسئلہ کی طرف حکومت پاکستان اور اپنے مسلمان بھائیوں کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ وہ انسانی مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کا مسئلہ بھی ہے اور خود اپنے وطن یعنی پاکستان کی عزت و آبرو اور وقار کا مسئلہ بھی ہے۔
اب جو افراد اور خاندان وہاں ابھی تک طویل عرصے سے کیمپوں میں کس مپرسی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور پاکستان کی راہ تک رہے ہیں۔ وہ ہمارے ہی کلمہ گو بھائی ہیں۔ وہ پاکستان کے شہری ہیں ان کا بھی پاکستان پر حق ہے ۔ ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیاہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے اور پھر بھارتی تسلط کے باوجود وہ وہاں پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے ہیں۔ اب ان کیلئے سب کچھ پاکستان ہی ہے۔ ان کی آرزو اور تمنا ہے کہ وہ پاک سر زمین پر پہنچ جائیں۔ میاں نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں کچھ خاندانوں کو پاکستان لا کر بسایا گیا تھا۔ اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہئیے۔ بلا شبہ یہ کام حکومت پاکستان کے کرنے کا ہے مگر ہم سب کو اس سلسلے میں جہاں تک ہو سکے تعاون کرنا چاہئیے۔
آخر میں حکومت اور تمام دینی ٗ سیاسی ٗسماجی رہنمائوں ٗ کارکنوں اور بالخصوص اہل قلم سے گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ کہ وہ خدا کے لئے پاکستانی مسلمانوں کو علاقہ اور رنگ و نسل اور زبان کی بناء پر تقسیم نہ کریں۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو ’’بہاری‘‘ کا نام نہ دیں۔ وہ صرف اور صرف مسلمان ہیں اور اس کے بعد پاکستانی ہیں۔ یاد رکھئے کہ علاقوں‘ نسلوں اور قوموں وغیرہ کی بنیاد محض تعارف اور پہچان کی حد تک صحیح ہے مگر ان سب میں سے کسی کو ترجیح دینے کا مسئلہ ہو تو پھر اسلام اور ملک کو سب پر اولیت اور فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔ قوم‘ زبان اور رنگ و نسل بعد کی بات ہے۔
مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں