محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

پاکستان مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن


سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخ میں ایک شرمناک دن 


جب سابق نااھل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ضد اور انا نے ان سے ایک ایسا کام سرانجام دلوایا جس کے داغ آج بھی ان کے دامن پے ہے ۔


یہ آج سے 20 سال پہلے کی داستان ہے جب 12 فروری 1997 کو نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے تو اس نے فوری طور پر 13 ویں آئینی ترمیم کی۔


 اس ترمیم کی رو سےصدر پاکستان کے اختیارات برائے تحلیل قومی اسمبلی ختم کر دیے گئے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد بارے صدر پاکستان کے اختیارات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس ترمیم کو حکومت اور حزب اختلاف کی حمایت حاصل تھی۔

اس ترمیم کے بعد آئین پاکستان سے آرٹیکل اٹھاون 2 ب میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے صدر پاکستان کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی اجازت تھی اگر وہ اپنی رائے میں یہ سمجھتے ہوں کہ ملک یا ریاست میں ایسی صورتحال جنم لے کہ جب حکومت یا ریاست کا انتظام چلانا آئین پاکستان کی رو سے ممکن نہ رہے اور اس ضمن میں نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو جائے۔

 اس آئینی ترمیم کے بعد وزیراعظم کسی کے سامنے جوابدہ نہ رہے۔


اس ترمیم کے چند ہی ماہ بعد آئین پاکستان میں چودہویں ترمیم منظور کی گئی، جس کی رو سے اراکین قومی اسمبلی کو سختی سے اس بات کا پابند بنا دیا گیا کہ وہ اپنی متعلقہ سیاسی جماعت کے کسی بھی فیصلے سے انکار نہیں کر سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے پائے گئے تو انھیں تادیبی کارروائی جس میں رکنیت کی معطلی شامل تھی کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس ترمیم کے بعد کسی بھی طرح سے منتخب وزیر اعظم کو معطل کیا جانا یا عوامی سطح پر اس کا احتساب ممکن نہ رہا، کیونکہ ایک بار منتخب ہونے کے بعد کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی رائے جسے اس نے اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ادا کیا تھا سے منحرف ہونا آئینی طور پر ممکن نہ رہا۔ اس ترمیم نے وزیر اعظم کے عہدے پر موجود تمام احتسابی نکات کا خاتمہ کر دیا۔


کچھ اراکین پارلیمنٹ نے اس آئینی تریم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی تو نواز شریف سخت طیش میں آگئے اور کھل کر سپریم کورٹ پر تنقید کی۔ جب پر سپریم کورٹ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا۔


حاالت خراب ہوتے دیکھ کر صدر پاکستان اور پاک فوج کے اس وقت کے سربراہ نواز شریف کو سمجھانے آئے اور درخواست کی کہ اس معاملے کو اچھے طریقے سے حل کریں۔ نواز شریف نے ضد کی کہ " چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا" ۔ ساتھ ہی نہایت جارحانہ انداز میں نہ صرف سپریم کورٹ میں اپنے مرضی کے ججز تعینات کرنے شروع کر دئیے بلکہ جسٹس سجاد علی شاہ کے قریب سمجھے جانے والے ججوں کی تنزلی بھی کر دی۔ جن ججوں کی تنزلی ہوئی انہوں نےنواز شریف کے اس حکم کے خلاف کوئٹہ ھائی کورٹ میں اپیل کر دی اور بہت سے ججز چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اسی دوران پشاور ھائی کورٹ سے ان دو ججز کی معزولی کا حکم آگیا جنکی تنزلی ہوئی تھی اور پشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے خود کو سپریم کورٹ کا عبوری چیف جسٹس قرار دےد یا۔تاہم چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنی کرسی پر موجود رہے اور نواز شریف کے خلاف کیس کی سماعت جاری رکھی ۔


28 نومبر 1997 کو پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی تھیں جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کا 'فل' بینچ اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں میاں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کر رہا تھا۔

سماعت اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ آج عدالت اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والی ہے۔

عدالت میں موجود وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کمرہ عدالت سے باہر جانے کی اجازت چاہی۔ جب عدالت نےخواجہ آصف کو عدالت سے جانے کی اجازت دی تو چند لمحوں بعد سپریم کورٹ کی راہداریوں سے شور بلند ہونا شروع ہوا۔

ایسے لگا کہ کچھ لوگ عدالت کی عمارت کے اندر نعرے بازی کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ آوازیں کورٹ نمبر ایک کے قریب تر آگئیں۔ کمرہ نمبر ایک میں موجود حاضرین جو ایک سنجیدہ ماحول میں عدالت کی کارروائی میں منہمک تھے شور سن کر اضطراب کا شکار ہو گئے۔


یک لخت دو صحافی، زاہد حسین اور فخر الرحمان کمرہ عدالت نمبر ایک میں داخل ہوئے۔ فخرالرحمان نے بلند آواز میں کہا 'مائی لارڈ وہ آ رہے ہیں۔'

اس پر بینچ کے سربراہ سجاد علی شاہ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 'تھینک یو شاہ صاحب اور عدالت برخاست ہوگئی۔ '

ججوں کے عدالت سے نکلنے کے چند منٹوں میں سینیٹر سیف الرحمن کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم عدالت میں داخل ہوگیا اور سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔

راولپنڈی سے مسلم لیگ کے ایم پی اے سردار نسیم نے فخر الرحمان پر حملہ کر دیا جن کی مداخلت سے مسلم لیگی ’غنڈوں‘ کے ہاتھ ججوں کے گریبان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔

اس وقت روزنامہ ڈان کےصحافی فراز ہاشمی کی مداخلت سے فخر الرحمان کی پٹائی تو بند ہوگئی لیکن نہ سجاد علی شاہ وہ فیصلہ سنا سکے جو وہ کچھ لوگوں کےخیال میں وہ لکھ کر ساتھ لائے ہوئے تھے۔


اس کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں دو متوازی عدالتیں لگیں اور عدالت کے باہر میں فخر الدین جی ابرہیم اور سابق وزیر قانون مرحوم سید اقبال حیدر کو اشک بار دیکھ کر میں اپنے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔۔


چیف جسٹس نے پاک فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے فورا 14 ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کر دیا اور صدر کے اختیارات بحال کر دئیے۔ پاک فوج نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس کا یہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کی۔ نواز شریف نے فوری طور پر صدر فاروق لغاری کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا اور وسیم سجاد کو عبوری صدر مقرر کرتے ہوئے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کر دیا۔یوں نہ صرف اپنی مرضی کا صدر مقرر کیا بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی مرضی کے ججز تعئنات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔


آج 21 سال گزر گئے ہیں اس بات کو لیکن سپریم کورٹ پہ حملے کا داغ آج بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے دامن پر باقی ہے۔۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]