محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


ایک گاوں میں غریب فیقا نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔گزر بسر مشکل سے ہوتا۔

فیقے کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو فیقا ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا تکیہ رکھتا اور سو جاتا۔ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا۔

فیقے کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شوروغل تھا ۔لوگ اپنا اپنا سامان گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے۔فیقا یہ منظر دیکھ رہا تھا وہ اٹھا ۔سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا۔چادر بچھائی دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔

جب وہ فیقے کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے فیقے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے ساڈی جان تے بنی اے  تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔یہ سن کر فیقا ہنس کر بولا۔لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔
جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا ۔مگر پھر ایک خیال سا آیا ۔میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا ۔کہ شاید بروز حشر کا منظر  کچھ ایسا ہو۔جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔دو وقت کی روٹی ۔کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔پلازے ۔دکانیں ۔فیکٹریاں۔گاڑیاں ۔بنگلے۔سونا چاندی ۔ملازم ۔پیسہ ۔حلال حرام۔عیش و آرام ۔زکوات ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد ۔ اتنی چیزوں کا حساب پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔ایک طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور  شاید دل ہی دل میں  کہہ رہے ہو گے۔۔۔اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

صفحہ اول پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں

Muhammad Ashraf Rawalpindi Pakistan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]