محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

29اکتوبر2018بروز پیر ...........................

ازقلم: (محمد اشرف)


قاری غلام سرور صاحب  کا تعلق بالاکوٹ کے گاؤں کھولیاں درویش آباد کے محلہ ڈھیری زمان سے ہے

قاری صاحب عرصہ دراز سے ہریپور میں دینی  خدمات سر انجام  دے رہے ہیں 

قاری غلام سرور صاحب کا شمار بھی کھولیاں درویش آباد کے معروف علماء قراء میں ہوتا ہے۔

قاری غلام سرور صاحب کے حوالے سے آج میں ذاتی خیالات کا اظہار کر رہا ہوں

ایک بات ذہن نشین کر لیں کسی کی بےبنیاد تعریف کرنا مجھے بالکل پسند نہیں،،، میں ہمیشہ جو محسوس کرتا ہوں وہی لکھتا ہوں اور جب کسی شخص کی خدمات یا کردار سے متاثر ہوتا ہوں تو بلا جھجھک اس کے بارے میں اپنی راۓ قائم کرتا ہوں کوئ کیا کہے گا یہ میں نے نہ کبھی سوچا نہ آئندہ ایسا سوچوں گا اور نہ ہی شخصیت پرستی کا بھوت مجھ پر سوار ہو سکتا ہے، کسی بھی شخص سے دلچسپی یا اس کے لیے دل میں جگہ بننے کی بنیادی وجہ اس کا اپنا کردار ہوتا ہے جو اپنی طرف لوگوں کو کھینچتا ہے۔


جس معاشرے میں ہم نے آنکھ کھولی وہاں کا دستور کچھ عجیب تھا لوگ سامنے کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ باتیں کرتے دکھائ دیے، رشتوں میں نفرت کا زہر بڑے قریب سے دیکھا،

پڑوسیوں کی ناراضگیاں اور ماتھے پہ بل شروع سے دیکھنے کو ملا،،،،، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تلخیاں اور پھر برسوں تک کی ناراضگیاں بھی میں نے آنکھوں سے دیکھیں۔


اب آپ کو اپنے اصل موضوع کی طرف لے کر جاتا ہوں

قاری غلام سرور صاحب سے متاثر ہونے کی پہلی وجہ یہ تھی کہ قاری صاحب کے محلےاور ہمارے محلے میں کافی فاصلہ ہے اس لیے بڑے لوگ تو ایک دوسرے کو جانتے تھے مگر ابتدائ زندگی میں ہمیں ان لوگوں تک رسائ نہیں تھی جس کی وجہ سے جان پہچان ممکن نہیں تھی۔


قاری صاحب کی شادی ہمارے خاندان سے ہوئ تو اس بہانے قاری صاحب کا آنا جانا بھی ہمارے محلے میں شروع ہوا اور ہم بھی کم از کم جاننے لگے کہ یہ قاری غلام سرور صاحب ہیں۔

قاری صاحب جب ہمارے محلے میں اپنے سسرال کے ہاں آتے تو تمام رشتے داروں کو برابر رکھتے سب کی خیر و عافیت دریافت کرتے۔

جب اس محلے میں ٹھہراؤ ہوتا تو رات کے وقت ہمارے گھر تشریف لاتے اور دیر تک والد محترم سمیت باتیں کرتے رہتے حتی کہ ہم سو جاتے۔


قاری صاحب چونکہ گاؤں میں بہت کم رہتے تھے تو جب گاؤں جاتے چھٹیاں کم ہوتیں تو پہلے اپنے محلے والدین کے ہاں جاتے اور وقت کی قلت کی وجہ سے واپسی کے سفر پر ہمارے محلے میں تشریف لاتے،   راستے میں موجود دو قبرستانوں پر فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھتے اور تمام رشتے داروں کے گھر ایک ایک منٹ مل کر جاتے،، کون کس سے ناراض ہے کس کی پارٹی کس کے ساتھ ہے ان تمام باتوں سے بے نیاز قاری صاحب کا یہ مختصر سا دورہ ہر عقل و شعور رکھنے والے کے لیے انتہائ سبق آموز ہوتا،،،، اور قاری صاحب کی اسی ادا نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائ۔


ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد میں کچھ اختلافات پر ہنگامہ ہوا تھا جس کے بعد سرکار نے مسجد کو تالا لگا دیا تھا، جو دو سال تک لگا رہا اس دوران چار عیدین کی نمازیں بھی قاری غلام سرور صاحب نے پڑھائ تھیں جس سے ہمیں انکی تقریر و وعظ سننے کا شرف بھی حاصل ہوا،،،، تقریباً چوتھی عید تھی جب مسجد کے ساتھ گراؤنڈ نما گھروں کی چھتوں پر نماز کے لیے لوگ جمع تھے بارش شروع ہو گئ، تو قاری صاحب نے بڑی دلیری سے اعلان کر دیا اب نماز مسجد میں ہو گی،،، اور وہ عید مسجد میں ادا کی گئ۔


عام طور پر قاری صاحب کی گفتگو کا انداز بڑا شائستہ ہے مگر سٹیج پر دوران تقریر وہ پوری طرح حق بیان کرتے ہیں اور اور اس انداز سے کرتے ہیں کہ  جس انداز کے لیے بڑا جگرہ ہونا بھی ضروری ہے۔


گزشتہ چند سالوں سے قاری صاحب سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں، جن میں طویل بات چیت ہوتی ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے،،،

جہاں تک میں نے قاری صاحب کو سمجھا  جانا  قاری صاحب ایک ذمہ دار اور فکر مند انسان ہیں جو پورے معاشرے کے سدھار کی سوچ رکھتے ہیں، اور بالخصوص ان کی زیادہ توجہ کا مرکز نوجوان اور بچے ہوتے ہیں،،، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ بچے کسی مقصد کے لیے کام کریں اور علاقے اور ملک کا نام روشن کریں۔


اکثر لوگوں میں یہ بیماری پائ جاتی ہے کہ کوئ مجھ سے نہ بڑھے،،، بس میں ہی سب کچھ ہوں،،، میرا نام بڑھے میرے چرچے ہوں مجھے شہرت ملے۔


مگر قاری صاحب باصلاحیت ہونے کے باوجود خود کو شو نہیں کرتے،،، کئ ایسے کام ہوتے ہیں جن میں قاری صاحب کا پورا رول ہوتا ہے،، مگر وہ اپنی تشہیر نہیں کرتے 

میری جب بھی ان سے ملاقات ہوئ انہوں نے ہمیشہ بامقصد گفتگو کی،،،  ان کی گفتگو میں اخلاص، اور فکر نظر آئ۔


دو دن پہلے ایک قریبی دوست سے گپ شپ ہو رہی تھی،، میں نے پوچھ لیا آجکل بڑے بڑے سپنے دیکھ رہے ہو کچھ کر گزرنے کا پروگرام بنا رہے ہو یہ سب کہاں سے سیکھا؟


تو کہنے لگا،،،،،،مجھے کیا پتا تھا یہ قاری سرور صاحب کی صحبت کا اثر ہے!!!


جہاں تک میں نے قاری صاحب کی جانا پہچانا جو محسوس کیا، انتہائ قابل انسان قائدانہ صلاحیت کے مالک اور نسل نو کے لیے فکر مند انسان ہیں ایسے لوگوں کی قدر کیجیئے اور ان کی قابلیت سے مستفید بھی ہونا چاہیے،،،


قاری صاحب کے اخلاق و کردار کے ساتھ ساتھ ان کی قائدانہ صلاحیت نے بھی کافی متاثر کیا ہے۔

اللہ تعالی قاری صاحب کو عمردراز نصیب فرماۓ۔ 


پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔


مزید اچھی تحریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]