محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



آٹھ تاریخ تھی اکتوبر کی


اور سن دو ہزار پانچ کا تھا


تھا بدلتے ہوئے موسم کا سرور


دھوپ کا اجلا بدن کانچ کا تھا


تھا گماں برف کا کہساروں پر


گو کہ صحرا میں شبہ آنچ کا تھا


عام سی صبح تھی صبحوں جیسی


جیسی ہوتی ہیں یہ اکتوبر میں


سال بھر جاگتی رہتی ہیں مگر


اک ذرا سوتی ہیں اکتوبر میں


اور اب سال کی ساری صبحیں


بیٹھ کر روتی ہیں اکتوبر میں


جب زمیں جھرجھری لے کر جاگی


کوہساروں نے بدن جھاڑ دئیے


زلزلاتی ہوئی اٹھی اک لہر


دھوپ میں ڈول گئی کشتی


عذابِ الہٰی اسے مت کہو تم


گھڑی آزمائش کی ہے میرے لوگو


خدا کی عنایات ہیں ہم پہ لاکھوں


مگر آزمائش ہے قانونِ قدرت


دلایا گیا ہم کو احساسِ لغزش


عذابِ الہٰی اسے مت کہو تم


وہ بچوں کی چیخیں ، بزرگوں کی آہیں


گناہوں کا احساس پیدا کریں گی


خدا سے دعائیں سبھی لوگ مانگیں


گھڑی آزمائش کی یوں ختم ہو گی


فرشتے وہ رحمت کے پھر بھیج دے گا


وہ غفّار بھی ہے وہ ستّار بھی ہے



صفحہ اول پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]