محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]




ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی بھی انسان کو اس کے تقوے، دیانتداری، سچائ، رحم دلی، انسان دوستی، تعلیم یافتہ، ہونے کی بنیاد پر اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ دولت اور شہرت کے ترازو میں اسے تولا جاتا ہے، 

ایک علاقے میں ایک انتہائ غریب مسکین مگر اعلی تعلیم یافتہ تہجد گزار لوگوں سے بہترین انداز میں پیش آنے والے شخص کو اس کے گردنواح میں وہ عزت قدر نہیں ملتی جو اسی علاقے کے ایک شرابی مگر دولت مند کو ملتی ہے، علاقے کےکئ حاجی صاحبان جو اس غریب کا مذاق اڑایا کرتے ہیں مگر اس دولت مند کے بارے میں جانتے ہوۓ بھی کہ یہ بدکردار اور ظالم ہے پھر بھی اسے جھک کر سلام پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

رشتوں میں آج وہ پہلے والی مٹھاس وہ محبت کیوں نہیں؟ بنیادی وجہ یہی ہے کہ رشتےدار بھی اسی کے گن گاتے ہیں جس کے مالی حالات بہتر ہوں،،، ایک غریب کا بچہ بھوک و افلاس کا مارا کسی دکان سے ریڑی سے دس روپے کی کوئ چیز چپکے سے اٹھا لے تو اسے چور کا لقب دے دیا جاتا ہے، اس کے والدین کو طعنے دیے جاتے ہیں، ان کے رشتےدار تک ان کے گھر آنا جانا بند کر دیتے ہیں، ان کی غربت اور تنگدستی کا مذاق اڑایا جاتا ہے، لوگوں کے سامنے ان کی تذلیل کر کے دل کو سکون دلایا جاتا ہے

یہ بیماری نہ صرف عام لوگوں میں ہے بلکہ ہر طبقے کے اندر یہ چیز پائ جاتی ہے، آپ صرف علماء اکرام کو ہی لے لیں جو ہمارے وطن عزیز میں بڑا قابل احترام طبقہ سمجھا جاتا ہے، بڑے واضح انداز سے یہاں بھی آپ کو تفریق نظر آۓ گی، جیسا کہ اس وقت دیوبندی مسلک سے جمیعت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کو بہت زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے، ان سے سیاسی اختلاف رکھنے والے پر بھی کفر تک کے فتوے لگا دیے جاتے ہیں، حالانکہ اس دور میں اسی مسلک سے کئ ایسے عالم موجود ہیں جو شاید حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مولانا فضل الرحمن سے بھی آگے ہوں مگر ان کا احترام اتنا اس لیے نہیں کہ ان کے پاس وزارتیں مرعات بنگلے پلاٹس نہیں، کیا کہوں احترام مولانا فضل الرحمن کا ہے یا ان کی دولت و شہرت کا؟

اسی طرح آپ اگر کسی سیاسی شخصیت کو دیکھیں زیادہ اوپر نہ جائیں آپ ایم پی اے یا ایم این اے کو بھی چھوڑیں آپ ضلع ناظم اور تحصیل ناظم کو بھی چھوڑیں آپ اپنے یوسی کے چیئرمین اور کونسلر کو لے لیں کسی وڈیرے جاگیردار چوہدری راجہ صاحب کی فوتگی ہو جاۓ تو چیئرمین کونسلر تمام مصروفیات کو بالاۓطاق رکھ کر فوتگی پر پہنچیں گے اور تین دن تک سوگ منائیں گے،، مگر پڑوس میں ایک غریب جس کے ووٹ سے حضرت چئیرمین بنے اس کی فوتگی ہو جاۓ چیئرمین صاحب کو پتہ بھی لگ جاۓ تو باوجود اس کے وہ نماز جنازہ کو فرض کفایہ سمجھ کر اپنے ضروری کام کے لیے روانہ ہو جائنگے، 
کیا کہوں اسے دکھ درد صرف وڈیروں کے ہوتے ہیں غریبوں کے نہیں؟

ایک گھر میں جواں بیٹی ہے جس کا باپ غریب ہے، باقی رشتے دار امیر ہیں وہ اس بیٹی کا رشتہ اپنے بیٹوں سے نہیں کرنا چاہتے کہ لوگ کیا کہیں گے غریب کے گھر سے شادی کری، ایک غریب شخص کا لڑکا انتہائ نیک سیرت ہے وہ اپنے رشتے داروں سے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگتا ہے، مگر انکار ہوتا ہے پھر وہی رشتہ ایک امیر خاندان میں ایک بدکردار کو سونپ دیا جاتا ہے؟ سوال پھر پیدا ہوا رشتہ لڑکے کو دیا یا اس کی دولت کو؟

معاشرے کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو مکمل طور پر منافقت میں گر چکا ہے، دین اسلام کے نام پر انسانیت سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو اذیت دینے سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ نے رشتےداروں پڑوسیوں اور حکمرانوں کو عوام کے حقوق کی ادائیگی کا حکم صادر فرمایا۔

مگر ہم اور ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کے اس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جو یقیناً دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائ کا سبب بنے گا۔

پیارے آقا مدنیﷺ تو مساوات کا پیغام لے کر آۓ تھے، اس دور کے بڑے بڑے تاجر سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جیسے مالدار صحابہ کی موجودگی میں آپﷺ حضرت بلال حبشی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو موذن مقرر کر کے امت کو بتا دیتے ہیں کہ میری شریعت میں امیر غریب گورےکالے کی کوئ اہمیت نہیں اگر اللہﷻ اور رسول پاکﷺ کی نظر میں فرق ہے تو وہ تقوی کی بنیاد پر ہے۔
اسلام میں مساوات کی آج بھی ایک زندہ مثال دن میں پانچ مرتبہ آپ باآسانی دیکھ سکتے ہیں، مسجد کے اندر باجماعت نماز کے وقت ایک غریب مزدور پھٹے ہوۓ کپڑوں کے ساتھ صف اوّل میں کھڑا نظر آتا ہے جبکہ بڑے بڑے تاجر بڑے بڑے لیڈر پیچھے کی صفوں میں اور کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس پھٹے پرانے کپڑوں والے مزدور کو اگلی صف سے ہٹنے کا کہہ سکے۔ چونکہ وہ اللہ کے گھر میں کھڑا ہوتا ہے۔

اور میرا وجدان کہتا ہے کہ قدرت نے مسجد میں نماز کی باجماعت ادائیگی کی فرضیت بھی مساوات کا سبق دینے کے لیےکی۔ جو عقل و شعور رکھنے والا ہوتا ہے وہ ضرور سمجھ جاتا ہے کہ مسجد کی پہلی صف میں علاقے کے چوہدری کے ساتھ ایک غریب کھڑا نماز کی نیت باندھ رہا ہوتا ہے، چوہدری اور غریب مزدور میں دو سے تین انچ کا فاصلہ ہوتا ہے، امام صاحب آواز بلند کرتے ہیں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جائیں، پھر وہ فاصلہ بھی مٹ جاتا ہے، اب ایک چوہدری جو کسی غریب کو ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتا،ایک غریب مزدور جس کے کپڑے پٹھے ہوۓ ہیں چوہدری کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے؛ جسم سے جسم ٹچ کر رہا ہے درمیان میں کوئ فاصلہ نہیں،

یہ مساوات کی ایک زندہ و جاوید مثال ہے، اس کے برعکس چلنے کو تکبر کہا جاتا ہے، جس کا شمار گناہ کبیرہ میں ہوتا ہے، آج ہمارے معاشرے میں تکبر عام ہے، ذات کا تکبر نسل کا تکبر زبان کا تکبر علم کا تکبر عمل کا تکبر عہدے کا تکبر دولت و جائیداد کا تکبر ہمارا معاشرہ خود کے علاوہ باقی غریبوں کو حقیر سمجھتا ہے، اور اپنے سے زیادہ مالدار کو بگوان کا درجہ دیتا ہے۔

بات پھر وہی اہمیت انسان کی نہیں اس کی دولت کی ہے۔

میرے آقا مدنیﷺ کی خدمت میں ایک غریب مزدور پیش ہوتا ہے، دوجہاں کے سردار انبیاءاکرام علیہ السلام کے امام اللہ کے پیارے حبیبﷺ اُس مزدور کا ہاتھ چومتے ہیں۔  لیکن آج کا سردار آج کا چوہدری آج کا امیر رشتہ دار کسی غریب کو مصافحہ کیا شفقت کی نظر سے دیکھنے کو تیار نہیں۔

عشق رسولﷺ کا دعوہ تو یقیناً ہم سب کرتے ہیں مگر رسول اللہﷺ نے جو کام بتاۓ ان سے ہم خود کو بری ذمہ سمجھتے ہیں۔  قرآن کریم نے تین چیزوں پر زور دیا 
نمبر 1: عبادت اللہﷻ کی
نبمر 2: اطاعت رسول اللہ ﷺ کی
نمبر 3: خدمت خلق اللہﷻ کی 
اور عبادت صرف نماز روزے ذکوۃ حج ذکر و اذکار کا نام نہیں عبادت مخلوق خدا کی مدد کا نام ہے
اطاعت رسولﷺ کا تقاضا ہے کہ جن چیزوں سے رسول اللہ نے منع فرمایا ان سے اجتناب کیجیئے اور جن کا حکم دیا ان پر عمل کیجیئے۔ 
غیبت،بغض،حسد، سےآپﷺ نے منع فرمایا جو ہمارے اہم مشغلے ہیں ان کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں۔
دعوہ عشق رسولﷺ کا مگر کام سارے الٹ۔

خدمت خلق اللہ سے مراد:
لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، اپنے کسی  رشتے دار پڑوسی کو تنگدستی یا مشکلات میں دیکھ کر بجاۓ اس کے تماشا کرنے کے اس کی مدد کرنا، ہم حاجی بھی بنے نمازی بھی بنے جہادی بھی بنے ذکاتی و صدقاتی بھی بنے بریلوی دیوبندی، اہلحدیث بھی بنے حتی کہ عاشق رسولﷺ بھی بنے مگر کاش کاش کاش ہم نہ بن سکے تو مسلمان نہ بن سکے۔

تحریر لمبی ہونے کے لیے معذرت 

عنوان تھا اہمیت انسان کی نہیں مال و دولت کی ہوتی ہے، بس یہی ہے وہ المیہ جو ہمیں سیدھا سیدھا جھنم تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]