محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

*منگنی*


منگنی کی رسم کی ابتدا کا اولین ذکر تورات میں ملتا ہے اور یہ یورپ سے ہوتے ہوئے پوری دنیا میں پھیلی۔ تلمود میں بھی منگنی کا ذکر ملتا ہے اور انگوٹھی دینے کا رواج رومن قوم سے مستعار لیا گیا ہے۔ 


اسلامی محقق محمد اکبر نے اپنی کتاب ”اللہ“ کے عنوان نکاح میں سورۃ البقرہ کی آیت 235 سے اسلام میں منگنی کو فرض کہا ہے۔


منگنی ایک ایسی رسم ہے جس میں دو افراد یا خاندان ایک لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے مستقبل کے میاں بیوی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور وہ شادی سے پہلے اک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے فیوچر میاں بیوی ہونے کے حسین اور رومانوی احساس کو محسوس کرتے ہوئے شادی تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ انگش میں اسے انگیجمنٹ اور پاک و ہند میں منگنی کہتے ہیں۔ منگنی ہونے کے بعد لڑکی اور لڑکا اخلاقی اور معاشرتی طور پر ایک دوسرے کی امانت ہوتے ہیں اور اپنے پارٹنر کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہ سوچنے کی غیر اعلانیہ قسم کھاتے ہیں اگرچہ ایسا ہو ضروری نہیں ہے۔ 


منگنی کی رسم اب خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے، منگنی کے بعد لڑکی اور لڑکا اک دوسرے کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں اور خاندان کی خواتین و حضرات لڑکی لڑکے کو ان کے منگیتروں کے نام سے چھیڑتے ہیں۔ بعض اوقات منگنی اور شادی دو خاندانوں کی صلح کروانے کے لئے بھی کی جاتی ہے۔


میرے خیال میں منگنی یا بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کی کمٹمنٹ بہت ضروری ہے، لڑکی اور لڑکے کے گھر والے اور دونوں منگیتران اس دوران ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانچ پرکھ لیتے ہیں کہ شادی ہونے کی صورت کیا دونوں پارٹیاں شادی کے بندھن کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں یا نہیں، سیدھا نکاح کر کے لڑکی گھر بٹھانے سے کہیں بہتر ہے منگنی پر ہی اکتفا کیا جائے کیونکہ جلد بازی میں کئے گئے فیصلے بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔  کوئی سقم نظر آنے کی صورت میں منگی آسانی سے توڑی جا سکتی ہے اور اس سے کسی کی زندگی بھی خراب نہیں ہوتی اگرچہ لڑکی کی منگنی ٹوٹنا بھی آدھی طلاق ہی مراد لیا جاتا ہے کہ اس کی فلاں جگہ سے منگنی ٹوٹی تھی اس میں ضرور کوئی کھوٹ ہوگا، کوئی برائی ہوگی یا یہ بدچلن تھی۔ 


منگنی کی ایک اور قسم بچپن کی منگنی بھی ہے جس میں دو بھائی یا بہنیں اپنے اپنے بچوں کی منگنی کر دیتے ہیں ایسی صورت میں بھلے شادی ہو یا منگنی میرے خیال میں مناسب نہیں ہے کیونکہ لڑکی بچپن سے لیکر جوانی تک اپنا متوقع شوہر اس لڑکے کو ہی مان کے بڑی ہوتی ہے، ہر ایک پل اسی کا سوچتی ہے لیکن اگر وہی منگیتر کسی اور میں دلچسپی لے تو لڑکے کے گھر والے بنا کہے یا منگنی توڑے بھی لڑکے کی شادی کہیں اور کر دیتے ہیں اس پہلو میں تکلیف صرف اور صرف لڑکی کے حصے میں آتی ہے اور پھر اسکی ساری زندگی اک کرب کی صورت میں گزرتی ہے کہ شادی کے بعد جب جب رومانوی تعلق قائم ہوتا ہے اور وہ آنکھیں بند کرتی ہے تو اسے اپنے شوہر کی جگہ اسکے بچپن کا منگیتر نظر آنے لگتا ہے۔ 


ہر عمل کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، ہر رسم کسی کے لئے بہت اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی لیکن ہر ایک عمل اور رسم کے برے پہلووں کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے اور وہ اسطرح کہ بچپن میں منگنی نہ کی جائے بلکہ جوان ہونے پر لڑکی اور لڑکے کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے انکی رضامندی جان لینے کے بعد ہی منگنی کی جائے۔ ڈائریکٹ شادی میں اکثر شادی کے فوری بعد اختلافات ہونے کا خدشہ ہوتا ہے کہ لڑکی لڑکا ایک دوسرے کو اتنی جلدی قبول نہیں کر پاتے، ایک دوسرے کا مزاج، اچھائیاں اور برائیاں سمجھنے بہت بہت وقت بیت جاتا ہے اور تب تک ازدواجی رشتہ ناقابل برداشت ہو چکا ہوتا ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]