ایک بنجر مرد اور گھر والی
نامور خاتون لکھاری صائمہ ملک اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ تو اس نے میرے شوہر کے دل و دماغ دونوں پر قبضہ کر لیا۔ میں اس کا نام نہیں لکھنا چاہتی اس لیے اسے ’صنوبر‘ کہہ کر پکاروں گی۔ پیار سے لوگ اسے ملک صاحب کی نئی دلہن کہتے تھے اور میں اسے میری سوتن کے نام سے پکارتی تھی۔ میری اس سے پہلی ملاقات اسی کے گھر میں ہوئی تھی۔ ابھی اس بیچاری کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ملک صاحب کے سوتیلے ماموں کی بیٹی تھی۔ وہ پٹھان قبائلی علاقے باجوڑ کی حسینہ تھی۔ یوں لگتا ہے باجوڑ میں بےجوڑ رشتے کرنے کی روایت سی پڑ گئی تھی۔ اسی لیے اس 19 سالہ حسینہ کو 43 سالہ دادا جی بنے میاں سے بیاہ دیا گیا۔ یہ شادی اگر ان حالات میں نہ ہوتی جن میں ہوئی تھی تو شاید ایک کامیاب شادی ہوتی۔ ملک صاحب کو اپنی وہ کزن جسے وہ شاید دو بار ملے تھے بہت اچھی لگی تھی۔ ان کی رال ٹپک ٹپک پڑتی تھی مگر پھر بھی پنجاب کی روایت کے مطابق وہ اس سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ملے تھے۔ محبت تو وہ کیا کرتے کیونکہ وہ ماسوا خود کے کسی اور سے محبت کرنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ میں یہ بات برملا کہہ سکتی ہوں کہ وہ محبت کے معاملے میں بنجر آدمی تھے۔ انہوں نے...