محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



پرائم منسٹر ہوم لون سکیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم صاحب نے کم آمدنی والے افراد کو گھر بنانے کیلئے "لو۔کاسٹ ہاؤسنگ فائنانس سکیم" کے تحت قرضہ دینے کی جو سہولت مہیا کی ہے اس کے سیلئینٹ فیچرز اور دلچسپی رکھنے والوں کے اس سلسلے میں جو جو سوالات ہو سکتے ہیں وہ اس تحریر میں مفاد عامہ کیلئے نہایت تفصیل کیساتھ پیش کئے گئے ہیں۔

سب سے پہلے اہلیت کا معاملہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سکیم کے تحت قرضہ حاصل کرنے کیلئے تین طرح کی اہلیت درکار ہے۔

پہلی اہلیت آپ کی ذاتی ہے، دوسری انکم کی ہے اور تیسری اہلیت اس جائیداد کی ہے جو آپ خریدنا چاہیں گے۔

ذاتی اہلیت کی شرائط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سکیم بنیادی طور پر صرف تنخواہ دار خواتین و حضرات کیلئے ہے جس میں عمر، جنس، ازدواجی حیثیت اور سروس کے دورانیئے کی کوئی قید نہیں۔

تنخواہ دار ملازم خواہ کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری ادارے کے ہوں یا کسی پرائیویٹ ادارے، کارخانے یا دفاتر میں کسی بھی گریڈ، کیڈر، یا درجے میں سکلڈ/نان۔سکلڈ لیبر، افسر، اسسٹنٹ، کلرک، پیون یا ڈرائیو سمیت کسی بھی حیثیت میں کام کرتے ہوں، وہ اپلائی کرنے کے مجاز ہیں بشرطیکہ ان کی تنخواہ کم از کم پچیس ہزار روپے ماہانہ یا اس سے زائد ہو۔

یہ تنخواہ متواتر ان کے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہو اور اپنے ادارے سے پچھلے ایک سال کی سیلری سلپس اور سیلری سرٹیفکیٹ مہیا کر سکتے ہوں۔

نادرا کے کمپوٹرائزڈ نیشنل شناختی کارڈ ہولڈر ہوں۔

اور ان کے نام پر ایک "ذاتی پلاٹ" کے علاوہ پہلے سے کوئی مکان/دکان/فلیٹ/کارخانہ یا کوئی اور زمینی جائیداد موجود نہ ہو۔

سیلف ایمپلائمنٹ کے شعبوں سے متعلق تعلیم رکھنے والے لوگ جو فی الحال سیلف ایمپلائڈ نہ ہوں یعنی ڈاکٹر یا وکیل جیسے لوگ جو کہیں فل ٹائم جاب کرتے ہوں وہ بھی اس میں شامل ہونے کے اہل ہیں۔

جو لوگ باقی تمام شرائط پر پورا اترتے ہوں لیکن ان کی تنخواہ پچیس ہزار سے کم ہو مگر شرط کے مطابق ڈاکومنٹڈ ہو وہ میاں بیوی، بہن بھائی، والد اور بچے، والدہ اور بچے مشترکہ درخواست گزار بن کے بھی لون لے سکتے ہیں، اس صورت میں ایک فرد اپلیکینٹ ہوگا اور دوسرے co-borrower ہوں گے۔

ممنوعہ ضرورتمند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزنس پرسن، سمال بزنس ہولڈر، ٹریڈرز، سپلائرز، ڈاکٹر، وکیل، دکاندار، رکشہ، ٹیکسی، ریڑھی بان، آڑھتی اور دیگر سیلف ایمپلائڈ قسم کے تمام لوگ اس سکیم میں حصہ لینے کے مجاز نہیں ہیں۔

جو لوگ اس سکیم میں ایکبار لون لے چکے ہوں وہ بھی دوبارہ اس کیلئے اہل نہیں ہوں گے۔

انکم کی اہلیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسک مینجمنٹ کے تحت بینک لونز کی ایک بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ بینک لون کی ماہانہ قسط جتنی بنتی ہو، لون لینے والے کی ماہانہ آمدنی اس قسط سے تین گنا زیادہ ہونی چاہئے، تاکہ وہ ایک تہائی سے قسط چکا دے اور بقیہ دو تہائی سے اپنے گھریلو خرچے اور کنٹیجنسی افئیرز، یعنی خوشی غمی کے معاملات، باآسانی نمٹا سکے۔

یہ اصول کسی بینک کے بروشر میں لکھا ہوا نہیں ملے گا لیکن یہ بینکنگ ریگولیشنز میں سے ہے اسلئے لاگو ہوگا تاہم آپ بینک سے بات چیت کرتے وقت اس نکتے پر بات کر کے مزید گنجائش مانگ سکتے ہیں جو معیاری کیسز میں مل بھی جاتی ہے۔

کچھ بینکوں کی رسک مینجمنٹ اتنی بولڈ ہوتی ہے کہ مورٹگیج۔ایبل پراجیکٹ سٹرانگ اور پارٹی سلجھی ہوئی ہو تو وہ تین کی بجائے دو گنا آمدنی پر بھی لون دے دیتے ہیں لیکن ہر کیس میں اور ہر علاقے میں یہ سہولت نہیں ملتی۔

اس بنیادی فارمولے کے مطابق آپ پچیس ہزار کی انکم پر صرف اتنا لون مانگ سکتے ہیں جس کی قسط آٹھ ہزار کے اندر اندر ہو، یعنی اس انکم پر تقریباً دس لاکھ تک کا لون ملے گا۔

پچاس لاکھ کا لون آپ صرف اس صورت میں مانگ سکتے ہیں جب آپ کی انکم سوا لاکھ کے قریب ہو۔

فرض کریں آپ کی ڈیمانڈ کے مطابق آپ کی انکم کم ہے تو گھر کے دوسرے افراد جن کی سیلری ڈاکومنٹڈ ہے انہیں اپنے ساتھ co-applicant بنا کے بھی اپنی ضرورت کے مطابق لون حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اگر آپ نے کوئی فکسڈ ڈیپازٹ کرا رکھا ہے یا بہبود سرٹیفکیٹ خرید رکھے ہیں تو ان کی آمدنی کا ثبوت بھی اپنی سیلری انکم کیساتھ ملا کے لون کی رقم بڑھوا سکتے ہیں۔

قرضے کی حد اور معیاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سکیم میں قرضے کی ابتدائی مقدار دس لاکھ روپے اور انتہائی مقدار پچاس لاکھ روپے ہوگی اور ری۔پیمنٹ کی مدت پانچ سے بیس سال تک رہے گی۔

مکان لینے کے بعد ایک حصہ کرائے پر دیکر یا کوئی بانڈ نکل آئے، یا کوئی بھائی جو باہر ہو اس کی آمدنی آجائے یا گھر کے سارے افراد مل جل کے جلد از جلد قرضہ اتارنا چاہیں تو پانچ سال پورے ہونے کے بعد لون کی بقیہ رقم یکمشت ادا کر سکتے ہیں۔

کسی بھی قسم کا بینک لون جب پانچ سال سے پہلے مکمل واپس کرنا چاہیں تو بینک اس پر پانچ فیصد کے قریب یا کچھ زیادہ early payment penalty لگا سکتا ہے لیکن اس سکیم میں پانچ سال تک لون رکھنے کی پابندی رہے گی، اس مدت کے بعد بغیر پینلٹی کے بھی بقیہ قرضہ پورا واپس کر سکتے ہیں۔

اپنی گنجائش کے مطابق یہ آپ خود بھی طے کر سکتے ہیں کہ کل قرضہ اور انٹرسٹ کی رقم پانچ، دس، پندرہ، بیس یا پانچ سال سے اوپر کتنی مدت میں اتارنا چاہتے ہیں۔

آپ کے لون کی رقم پلس بینک کا مارک۔اپ ملا کے جو رقم بنے گی وہ آپ کی منتخب کردہ مدت پر برابر ماہانہ اقساط میں تقسیم کرکے ہر ماہ ادا کرنی ہو گی، یہ پیمنٹ شیڈول بینک اپنے فارمولے سے بنا کے آپ کو دیدے گا۔

قرضے کی اقسام اور انٹرسٹ ریٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت کی اس سکیم کے تحت ہر بینک نے الگ الگ نام سے اپنی پراڈکٹ بنا رکھی ہوگی، جیسے میرا گھر، اپنا گھر، سویٹ ہوم وغیرہ لیکن بنیادی شرائط، پراسس اور شرح منافع سب بینکوں کا تقریباً ایک جیسا ہو گا جو کنوینشنل بینکوں میں انٹرسٹ کی بنیاد پر اور اسلامی بینکوں میں شرکت متناقصہ diminishing musharika کی بنیاد پر دستیاب ہوگا۔

ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کنوینشنل لون پر بینک اپنا نفع جمع کرکے مجوزہ مدت کی ماہانہ اقساط بنا دیتا ہے جبکہ اسلامی بینک شراکتداری کرتا ہے یعنی آپ نے اور بینک نے مل کر پارٹنرشپ پر ایک مکان خریدا جو آپ نے استعمال کرنا ہے، بینک چونکہ اس کو استعمال نہیں کرے گا لہذا وہ اپنے حصے کے عوض آپ سے ماہانہ کرایہ وصول کرتا رہے گا، جیسے جیسے آپ بینک کا پیسہ واپس کرتے جائیں گے بینک کا حصہ کم اور آپ کا زیادہ ہوتا جائے گا تو اسی حساب سے بینک کا کرایہ بھی کم ہوتا جائے گا۔

ان دونوں اقسام میں ماہانہ قسط برابر رہتی ہے اس طرح کہ شروع میں وہ پرنسپل کم اٹھاتے ہیں اور نفع زیادہ پھر یہ شرح کم ہوتے ہوتے آخر میں پرنسپل زیادہ اور نفع کم اٹھاتے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کا نتیجہ تقریباً برابر ہی رہتا ہے۔

آپ چاہیں تو کنویشنل بینک سے لے لیں، چاہیں تو اسلامی بینک سے لے لیں اوپر کی رقم تقریباً ایک جیسی ہی ادا کرنی پڑے گی تاہم نظریاتی طور پر عام لون کی نسبت شراکتداری اطمینان بخش چیز ہے۔

بینک کی شرح منافع پہلے پانچ سال میں کل رقم پر پانچ فیصد کے ریٹ سے لاگو ہوگی، اگلے پانچ سال میں بقیہ رقم پر سات فیصد رہے گی اور دس سال میں چونکہ آپ کا آدھا لون ادا ہو چکا ہوگا اسلئے اگلے دس سال کیلئے یا دس سال سے اوپر کی مدت کیلئے بقیہ رقم پر شرح منافع بڑھ کے کائبور+ڈھائی فیصد سرکاری ہاؤسنگ پراجیکٹ سے خریدے ہوئے گھر پہ اور کائبور+چار فیصد غیر سرکاری پراجیکٹ سے خریدے ہوئے گھر پہ لاگو ہو گی۔

پرسنل ایکویٹی اور بینک لون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں آپ پینتیس لاکھ کا گھر خریدیں گے وہاں تقریباً پندرہ فیصد رقم، یعنی پانچ لاکھ روپے، آپ کو ادا کرنے ہوں گے، بقیہ پچاسی فیصد یعنی تیس لاکھ روپے بینک ادا کرے گا۔

جہاں آپ اسی لاکھ تک کا گھر لیں گے وہاں تیس لاکھ روپے آپ خود دیں گے بقیہ پچاس لاکھ بینک ادا کرے گا جو تقریباً اڑتیس اور باسٹھ فیصد کا ریشو بنتا ہے۔

اس سکیم کے تحت آپ کو مکان کی کل قیمت کا ستر فیصد لون ملے گا اور تیس فیصد آپ نے اپنا حصہ ڈالنا ہے لیکن یہ اڑتیس اور باسٹھ کیوں بن رہا ہے یہ آخر میں ایک فارمولے سے واضح کروں گا جسے سمجھنا نہایت اہم ہے ورنہ لون پراسس کرانے کے بعد پریشانی ہو گی۔

اسی طرح جہاں آپ ایک کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ کا مکان خریدنا چاہیں گے وہاں پچاس لاکھ سے اوپر کی رقم آپ کو اپنی جیب سے ہی ادا کرنی ہوگی لیکن پہلے اس بات کی منظوری بینک سے لینی ہوگی کیونکہ یہ سکیم بنیادی طور پر کم آمدنی والے تنخواہ داروں کیلئے لو۔کاسٹ ہاؤسنگ سکیم ہے، ایسا نہ ہو کہ بینکر اپنے لالچ میں منظوری دیدے لیکن مہنگا پراجیکٹ لیکر آپ کہیں آڈٹ اوبجیکشن میں آکے بنیادی اہلیت کی شرط سے ہی خارج نہ ہو جائیں، اس صورت میں لون واپس کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

مختلف رقوم پر ماہانہ اقساط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ بیس سال کی مدت کیلئے قرضہ لیتے ہیں تو پہلے پانچ سال میں پانچ فیصد انٹرسٹ ریٹ کیساتھ درج ذیل رقوم پر ماہانہ اقساط یہ بنیں گی۔

لون دس لاکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہانہ قسط 6600
لون بیس لاکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہانہ قسط 13200
لون تیس لاکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہانہ قسط 19800
لون چالیس لاکھ ۔۔۔۔۔۔ ماہانہ قسط 31000
لون پچاس لاکھ ۔۔۔۔۔۔۔ ماہانہ قسط 38800

ان اقساط میں اصل رقم اور کرایہ یا انٹرسٹ دونوں شامل ہیں۔

اگلے پانچ سال میں سات فیصد انٹرسٹ چارج ہوگا لیکن ماہانہ قسط تقریباً اتنی ہی رہے گی کیونکہ اس دوران اصل رقم بھی کافی حد تک کم ہو چکی ہو گی۔

اگلے دس سال میں رعایتی انٹرسٹ ریٹ ختم ہو جائے گا اور کائیبور پلس سٹینڈرڈ ریٹ لگے گا تاہم قسط تھوڑے بہت فرق کیساتھ یہی بنے گی کیونکہ آدھی سے زائد اصل رقم ادا ہو چکی ہوگی۔

یہ ایک محتاط اندازہ ہے، آپ جب اپنی ضرورت کے مطابق لون اور دورانیہ منتخب کرکے بینکر سے پیمنٹ شیڈیول بنوائیں گے تو حتمی اندازہ پھر ہی مل سکے گا تاہم وہ بھی اس تخمینے کے اریب قریب ہی ہوگا۔

جائیداد کی اہلیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سکیم میں آپ 120 گز، 125 گز، 250 گز، 05-مرلہ، 10-مرلہ کے گھر اور ایسے اپارٹمنٹ بھی خرید سکتے ہیں جن کا کورڈ۔ایریا 850 مربع فٹ سے 1100 مربع فٹ تک ہو۔

یہ جائیداد آپ سرکاری ادارے "نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی" NAPHDA سے بھی خرید سکتے ہیں اور کسی پرائیویٹ ڈویلپر کے ہاؤسنگ پراجیکٹ جنہیں اس سکیم میں Non-NAPHDA سنگل یونٹ قرار دیا گیا ہے ان سے بھی خرید سکتے ہیں۔

نان۔نیفڈا پراجیکٹس میں جائیداد خریدنے پر درج ذیل شرائط لاگو ہوں گی۔

آپ بنا بنایا مکان لینا چاہیں تو یہ ایک سال سے پرانا نہیں ہونا چاہئے، بلڈر اس کا کمپلیشن سرٹیفکیٹ مہیا کرے گا جس کی بنا پر اس کی لائف طے ہوگی، جہاں یہ سرٹیفکیٹ متعلقہ علاقے کی یونین کونسل/ٹاؤن کمیٹی/بلدیہ/ میونسپل یا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جاری کرتی ہو وہاں متعلقہ اتھارٹیز کا کمپلیشن سرٹیفکیٹ ہی لگانا پڑے گا اور اس کیساتھ سائٹ پلان اور منظور شدہ نقشہ بھی دینا ہو گا۔

جو مکان آپ خریدنا چاہتے ہیں وہ پہلے سے کسی کے نام پر رجسٹرڈ نہ ہوا ہو، یعنی ری۔سیل کا مکان قابل قبول نہیں ہوگا، آپ اس کے فرسٹ اونر بننے والے ہوں گے تو ہی اس پر لون جاری ہوگا۔

آپ کے پاس کوئی ذاتی پلاٹ موجود ہے یا آپ اپنا ذاتی پلاٹ خرید کے خود مکان بنانا چاہیں تو یہ پلاٹ بھی آپ سے پہلے کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ نہ ہوا ہو۔

اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ پلاٹ یا مکان آپ کسی ایسے ڈویلپر سے خریدیں گے جس نے ابھی تک کسی کے نام پر ٹرانسفر نہ کرایا ہو اور پہلی بار وہ صرف آپ ہی کو الاٹ اور ٹرانسفر ہو رہا ہو۔

کسی ایسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا پلاٹ یا گھر قابل قبول نہیں جو آپ کے نام پر لیز اور رجسٹر نہ ہو سکے، بعض ہاؤسنگ سوسائٹیز خریدار کو صرف اپنی مینجمنٹ کا رجسٹریشن لیٹر تھما دیتی ہیں، زمین ان کے اپنے نام پہ ہی رہتی ہے لیکن سوسائٹی کے ریکارڈ میں متعلقہ یونٹ کے مالک آپ ہو جاتے ہیں، ایسے مکان یا پلاٹ کی لیگل ورتھ نہیں ہوتی اسلئے یہ سکیم میں شامل نہیں ہو سکے گا۔

کہیں بھی گھر یا پلاٹ خریدتے وقت یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو جگہ ڈپٹی کمشنر لینڈ اینڈ ریوینیو کی طرف سے ننانوے سال کی لیز پر نہ ہو اور سب۔رجسٹرار کے آفس میں آپ کے نام پہ رجسٹری نہ ہو سکے، ایسی جائیداد مورٹگیج نہیں ہو سکتی اور ڈیفالٹ کی صورت میں بینک اس کا قبضہ لیکر اپنے پیسے ریکوور نہیں کر سکتا لہذا اس پر کسی بھی بینک سے کسی بھی طرح کا کوئی بھی لون نہیں ملتا، خواہ آپ کے گھر کی مارکیٹ ویلیو اس سوسائٹی میں دس کروڑ ہی کیوں نہ ہو اور آپ حکومتی سکیم کی بجائے کوئی عام سا بزنس لون ہی لینا چاہتے ہوں تو وہ بھی نہیں ملے گا۔

لون پراسسنگ پروسیجر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ مقررہ شرائط پر پورا اترتے ہیں تو جس بینک سے آپ کنوینشنل لون یا مشارکہ لینا چاہتے ہوں، ان کے مجوزہ درخواست فارم کیساتھ شناختی کارڈ کی کاپی، سیلری سرٹیفکیٹ، سیلری سلپس، اپنی بینک سٹیٹمنٹ اور این۔ٹی۔این سمیت جو دیگر چیزیں بینک طلب کرے وہ مہیا کر دیں۔

اگر اس برانچ میں آپ کا بینک اکاؤنٹ موجود نہیں تو وہ بینک سب سے پہلے آپ کا اکاؤنٹ کھولے گا، اس پر کچھ ڈاکومینٹیشن چارجز بھی لاگو ہوں گے۔

پھر آپ کی انکم کی ویریفکیشن کرائے گا، آپ کی اہلیت ثابت ہوگئی تو جنتی رقم کا لون منظور ہوگا اس کے مطابق آپ کو مکان تلاش کرنے کی اجازت مل جائے گی، اس موقع پر بھی کچھ پراسیسنگ فیس لاگو ہوتی ہے۔

آپ مجوزہ شرائط کے مطابق مکان یا پلاٹ تلاش کر لیں گے تو اس کے مالک کے اونرشپ ڈاکومنٹس لاکے بینک کو جمع کرائیں گے، بینک وہ کاغذات ایک سروے کمپنی کو بھجوائے گا جو اس جائیداد کی ویلیوایشن کرکے بتائے گی۔

فرض کریں آپ نے جو مکان پسند کیا وہ ستر لاکھ کا ہے، بہت سے لوگ اس کی یہی قیمت لگا رہے ہیں اور آپ یہ رقم دینے کو تیار ہیں تو اصول کے مطابق اس میں سے بینک نے ستر فیصد دینا ہے اور تیس فیصد آپ نے خود دینا ہے تو کمپوزیشن یہ ہوگی کہ تقریباً پچاس لاکھ بینک دے گا اور بیس لاکھ آپ دیں گے۔

لیکن بینک اس کی مالیت ستر لاکھ نہیں مانے گا جب تک کہ سروے کمپنی اس مکان کی مالیت ستر لاکھ نہیں بتاتی۔

فرض کریں سروے کمپنی والا بھی اس کی مالیت ستر لاکھ ہی لکھ دیتا ہے تو اس صورت میں بھی آپ کو ستر لاکھ کا سترفیصد لون نہیں ملے گا بلکہ اس میں سے فورسڈ سیلز ویلیو منہا کرکے نیٹ ویلیو نکالی جائے گی اور اس کا ستر فیصد لون ملے گا۔

فورسڈ سیلز ویلیو کا مطلب ہے کہ اگر برے حالات میں یہ جائیداد بیچنی پڑے تو کتنی قیمت کم کرکے بیچ سکیں گے، یہ شرح عموماً پندرہ سے بیس فیصد تک منہا کی جاتی ہے۔

تو اب حتمی کمپوزیشن یوں بنے گی کہ کل قیمت ستر لاکھ، مائنس بیس فیصد فورسڈ سیلز ویلیو، بقایا بچے چھپن لاکھ کے قریب، اس کا ستر فیصد چالیس لاکھ کے قریب آپ کو لون ملے گا اور بقیہ رقم آپ کو خود ادا کرنی ہوگی۔

یہ وہ فارمولا ہے جس کی وجہ سے ایکویٹی پورشن میں اڑتیس اور باسٹھ کا ریشو بن جاتا تھا۔

یہ بات سمجھنا اسلئے ضروری تھی کہ سب کچھ کر کرا کے جب آپ کو تیس کی بجائے اڑتیس فیصد ڈاؤن پیمنٹ دینی پڑے تو پریشانی نہ ہو، آپ یہ سوچ کر چلیں کہ جو قیمت مالک مکان بتائے گا ایک تو وہ سروے کمپنی کی اسیسمنٹ سے پہلے ہی زیادہ ہوگی پھر سروے کمپنی کی اسیسمنٹ میں سے بھی بیس فیصد ویلیو کم کی جائے گی، پھر جو جواب آئے گا اس کا ستر فیصد لون ملے گا، نتیجۃً یہ سمجھ لیں کہ پینتیس لاکھ تک کے مکان کا بیس فیصد اور اسی لاکھ کے مکان پر چالیس فیصد آپ کو اپنی جیب سے ہی ادا کرنا ہوگا۔

اسی لاکھ سے بھی مہنگا مکان لیں گے تو پچاس لاکھ کے لون سے اوپر کی ساری رقم آپ کو اپنی جیب سے ہی ادا کرنی ہو گی۔

سروے کمپنی کی فیس بھی آپ کو ادا کرنی ہے جو دس سے پندرہ ہزار تک ہو سکتی ہے، پھر جب یہ ٹرانزیکشن مکمل ہو جائے تو مکان آپ کے ہی نام پہ رجسٹری ہوگا لیکن ساتھ ہی بینک کے نام پر مورٹگیج ہو جائے گا یعنی رہن رکھ دیا جائے گا، اس پراسس پر بھی رجسٹری فیس کیساتھ مورٹگیج فیس سب آپ کو ہی ادا کرنی ہو گی۔

مالک مکان کیساتھ سیلز ایگریمنٹ اور رجسٹری کے کاغذات آپ خود کسی وثیقہ نویس یا وکیل سے تیار کرائیں گے، جبکہ مورٹگیج کے کاغذات بینک تیار کرے گا لیکن اسٹیمپ پیپرز کا بل آپ کو ہی دینا ہوگا۔

ان کاغذات میں آٹھ دس صفحات کی ایک مورٹگیج ڈیڈ ہوگی، نیٹ ورتھ سٹیٹمنٹ، بیسک فیکٹ شیٹ، پرسنل گارینٹی، پرومائزری نوٹ اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کی صورت میں بینک کو جائیداد بیچنے کی پاور آف اٹارنی دینا شامل ہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جب کوئی بندہ کسی وجہ سے قسطیں ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ بینک کی اجازت سے ازخود بھی بیچ سکتا ہے تاکہ اچھی قیمت حاصل کرسکے ورنہ بینک تو صرف اتنے میں ہی بیچے گا جس میں اس کے اپنے پیسے ریکور ہو جائیں۔

پراسیسنگ فیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیس لاگ۔ان ہونے سے رجسٹری اور مورٹگیج تک جو پراسیسنگ اور ڈاکومینٹیشن چارجز آپ کو ادا کرنے پڑیں گے وہ چھوٹے لون پر اندازاً پچاس ہزار اور بڑے لون پر لاکھ روپے تک لگ سکتے ہیں۔

پروفیشنل ریمارکس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سکیم کی افادیت یہ ہے کہ اس میں پہلی بار کم آمدنی والے تنخواہ داروں کو فوکس کیا گیا ہے جو عام حالات میں ڈاکومنٹیشن کی سختی، اہلیت کے مسائل اور بھاری انٹرسٹ ریٹ کی وجہ سے ہوم لون حاصل نہیں کر سکتے تھے، پھر اس پر انٹرسٹ ریٹ تقریباً پچاس فیصد آف ہے، اور ڈاکومینٹیشن بھی بالکل سادہ ہے۔

دوسری افادیت یہ ہے کہ چھوٹے شہروں اور رورل ایریاز کے کم آمدنی والے ملازمین اس سکیم سے بہت بڑی تعداد میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ وہاں کی ترقی پزیر کالونیوں میں پچیس تیس لاکھ میں بہت اچھا گھر بن جاتا ہے۔

زیرو ایکویٹی پر کہیں بھی کوئی لون نہیں ملتا اسلئے ایکویٹی سائڈ پر جو ڈاؤن پیمنٹ کرنی پڑے گی وہ بالکل نارمل ہے ورنہ قسط کی رقم آپ کی آمدنی میں فٹ نہیں ہو پائے گی۔

تاہم سکیم کا پہلا ڈیمیرٹ یہ ہے کہ اس میں صرف وہی لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے جن کے پاس ڈاؤن پیمنٹ کیلئے بیس سے چالیس فیصد رقم موجود ہو گی جبکہ کم آمدنی والے اور درمیانی آمدنی والے لوگوں کی بڑی اکثریت مہینے کی آخری تاریخوں میں بالکل کنگال ہو جاتی ہے تو ضرورتمندوں کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے گی۔

اس کی بجائے فورسڈ سیلز ویلیو نکالے بغیر ڈاؤن پیمنٹ کی شرح پندرہ فیصد رکھی جاتی تو پھر ایک بڑی اکثریت اس سکیم سے بہرحال فائدہ اٹھا سکتی تھی۔

دوسرا ڈیمیریٹ یہ ہے کہ بڑے شہروں کے کم آمدنی والے طبقات اس سکیم سے قطعاً فائدہ نہیں اٹھا سکتے جہاں اندرون شہر کے ترقی پزیر علاقوں میں بھی نئے مکان کی قیمتیں لگ بھگ ایک کروڑ سے شروع ہوتی ہیں اور اس کیلئے پچاس لاکھ روپے ڈاؤن پیمنٹ کرنی پڑے گی۔

ڈسکلیمر نوٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک ایجوکیشنل اوورلے یا معلوماتی تحریر ہے جو لیگل ایڈوائز کے مترادف ہرگز نہیں ہے، نہ ہی اس میں پیش کردہ اعدادوشمار اور پرسیجرز کو حتمی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں بینک ٹو بینک بھی ویری کرتی ہیں اور اس سکیم کی پالیسی جس قدر سامنے آئی ہے اسے مدنظر رکھ کے بتائی گئی ہیں جو ان۔ڈسکلوزڈ پالیسی سے مختلف بھی ہو سکتی ہیں، لہذا حتمی بات وہی ہو گی جو اس سلسلے میں آپ کو بینکر بتائے گا تاہم اس مضمون کی بدولت آپ ان تمام گوشوں کو بینکر کیساتھ اچھی طرح سے ڈسکس کرنے کے قابل ہوں گے جو پلاننگ اور ڈیلنگ کرتے وقت مدنظر رکھنے چاہئیں تاکہ آپ کی پلاننگ اور ہینڈلنگ میں کوئی جھول نہ رہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]