محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


کیا حیدر رضا رضوی نے واقعی سیدنا صدیق اکبرؓ کی گستاخی کی ہے؟

سوشل میڈیا پر سنی مسلمانوں کی طرف سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ اہل تشیع ذاکر (حیدر رضا رضوی) نے دوران تقریر خلیفہ اول سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے بارے میں گستاخانہ کلمات بولے ہیں، لہذا اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔

آج جب میں نے وہ ویڈیو سنی تو مجھے لگا یہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی  ایسی بیشمار گفتگو اہل تشیع مکتبہ فکر کے ذاکرین اور علماء کر چکے ہیں جو آج بھی باآسانی یوٹیوب پر مل جاتی ہیں۔ اور اہل تشیع ذاکرین و علماء یہ باتیں اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے اکابرین نے یہ سب لکھا ہے جو ان کے عقیدے کی بنیاد بن چکا ہے، کوئی کچھ بھی کہے کچھ بھی کرے اہل تشیع چند صحابہؓ کے علاوہ تمام صحابہؓ اور یہاں تک کہ ازواجِ مطہرات سمیت کئی مقدس شخصیات کو مسلمان نہیں سمجھتے اور وہ برملا اس کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔

اس ویڈیو میں میں (حیدر رضا رضوی) نے سیدنا ابوبکرصدیقؓ کا نام نہیں لیا لیکن جس واقعہ کا ذکر کیا اشارہ خلیفہ اول کی طرف ہی تھا۔
اہل تشیع مکتبہ فکر کے نزديک یہ گستاخی نہیں بلکہ ایک حقیقت پر مبنی تاریخ کا باب ہے،، جبکہ سنیت کے ہاں یہ بدترین گستاخی اور توہین ہے۔
آج کے اہل تشیعوں کے مطابق سنیت کا احتجاج اور غم و غصہ بلاوجہ  ہے جبکہ سنیت کے ہاں ایسی گستاخیوں پر شدید رد عمل دینا بھی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔

یہ تو تھی دونوں طرف کی وہ حقیقت جو عقائد کے اعتبار سے جانی جاتی ہے۔
اب اس مسئلے کا حل نہ تو علماء کے پاس ہے نہ ذاکرین کے پاس نہ عوام کے پاس کہ ایک دوسرے کے جذبات سے کھیلنے والی گیم کو روکا جا سکے۔ 
پاکستان میں سنیت کی اکثریت ہے جو خلفاءراشدین کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ شیعت اقلیت میں ہیں جو خلفاءراشدینؓ کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔

اب ایک نفرت انگیز گیم کو ختم کرنے کا واحد حل حکومت پاکستان کے پاس ہے
ویسے بھی ہماری عوام ذرا ڈنڈا زیادہ ہی پسند کرتی ہے تو کیوں نہ ڈنڈے کا استعمال کرتے ہوئے ایسے شرپسند عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
ویسے بھی پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر بنی ہے تو کچھ تقاضے اسلام کے پاکستان سے بھی ہیں کہ پاکستان اپنے آئین میں اسلام کے بنیادی ستونوں یعنی خلفاء راشدین کو تحفظ فراہم کرے۔

گزشتہ سال کراچی میں مزار قائد کی بےحرمتی پر کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا، اس لیے کہ اس نے بانی پاکستان کی قبر کا احترام تک ملحوظ خاطر نہ رکھا، اگر ہمارے قانون میں بابائے قوم محمدعلی جناحؒ سمیت پاکستان کے دیگر ہیروز اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے خلاف بولنے والوں کے خلاف قانون سازی اور کاروائیاں ہو سکتی ہیں تو اسلام کے ہیروز اور مقدس شخصیات کے لیے قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی؟

اس وقت ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ خلفاء راشدینؓ ،صحابہ اکرامؓ و ازواج مطہراتؓ کے تحفظ کا بل پاس کر کے قانون سازی کی جائے۔ کسی بھی ٹیوی شو منبر و محراب مسجد و امام بارگاہ سمیت کسی بھی جگہ کسی بھی پلیٹ فارم سے مقدس شخصیات کی توہین ہو بلا امتیاز اس مجرم کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے سزا دی جائے تاکہ ملک و قوم انتشار سے بچ سکے۔

اگر یہ سب کسی کا عقیدہ ہے تو اپنے دل میں رکھے منبر و محراب پر لوگوں کی واہ واہ کے لیے مقدس شخصیات کی توہین و تذلیل کرنا درحقیت ایک فساد ہے جو مسلم اکثریت کو اشتعال دلانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ جب اس معاملے پر حکومت اور ریاستی ادارے توجہ نہیں دیں گے ملک میں فرقہ واریت کی آگ مزید بڑھکتی جائے گی جس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
ایسی متنازعہ کتب جن میں مقدس شخصیات کی توہین ہو، جو مسلمانوں کی اکثریت میں اشتعال انگیزی کا باعث بن رہی ہوں فی الفور ان کتب پر پابندی عائد کی جانی چاہیے اور ایسے مواد کو کسی بھی پلیٹ فارم پر شیئر کرنے یا ڈسکس کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے۔

جب حکومت اس نیک کام میں نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون سازی کرے گی، شرپسندوں کو سزائیں دلوائے گی تو نہ شیعہ کافر کے نعرے لگیں گے اور نہ ہی صحابہ اکرامؓ و مقدس شخصیات کے خلاف کوئی بولنے کی جرت کر سکے گا۔

ازقلم: محمد اشرف 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]