محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


اگر غور کیا جائے تو اخراجات کی اصل وجہ شادی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کی رسومات ہیں جو ہمارے کلچر میں بری طرح اتر چکی ہیں۔ اگر ہم مایو ، مہدی ، منگنی ، جہیز اور دیگر فرسودہ رسومات سے جان چھڑا لیں اور صرف نکاح اور ولیمہ پر اکتفا کرلیں تو بڑی آسانی ہوجائے گی ۔۔۔ 
مہنگے زیورات ، مہنگا جہیز، مکلاوا، جوتی چھپائی، دودھ پلائی، سسرال کے جوڑے لگائی اور سب رشتے داروں کی مٹھائی اور بِد بھجائی جیسی جتنی زیادہ رسمیں ہم پال چکے ہیں اتنی ہی زیادہ ٹینشنیں، رشتے داروں کی باتیں اور ناراضگیاں بھی مول لے رہے ہیں ۔
لیکن قصوروار کون۔۔۔؟ ہماری خواہ مخواہ کی انا، ہمارا معاشرہ، ہندووانہ رسمیں اور لوگوں کی باتوں اور سوچ کا ڈر ۔۔۔ کہ "لوگ کیا سوچیں گے۔۔۔ ؟"

اسی لئے اب والدین کے لئے سب سے بڑی ذمہ داری اولاد بیاہنے کی ہوتی ہے اور وہ ان تین چار دنوں میں ساری عمر کی کمائی لگا دیتے ہیں۔ ایک نئی زندگی تو شروع ہوجاتی ہے لیکن پرانی زندگی کا خون چوس کر۔۔۔
شادی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے رشتے کی تلاش سے۔ رشتے کروانے والے خوب پیسے بٹورتے ہیں۔۔۔ 
رشتہ طے ہونے کے بعد مبارکباد کے نام پر مٹھائی کھلائی جاتی ہے اور لڑکا ،لڑکی والے ایک دوسرے کو نقد رقم دے کر بات پکی کرتے ہیں ۔ 
منگنی کی تاریخ طے ہو تو دلہن کے لئے سونے کی انگوٹھی اور سسرال والوں کے لئے بھی جوڑے ۔ ناک رکھنے کے لئے اچھے کھانوں کا اہتمام
منگنی کے بعد ڈیٹ فکس کرنے کی روایت الگ جس میں لڑکی والوں کو دعوت کے ساتھ رقم دی جاتی ہے۔ لڑکی والے لڑکے والوں کی مٹھائی سے تواضع کرتے ہیں۔
یہاں سے شادی کی شاپنگ کےدن شروع۔۔۔ لڑکی والوں کی کمر تو پہلے جہیز اور زیور توڑتا ہے ۔ دلہا دلہن کے جوڑے، جوتیاں، سسرالیوں کے لئے ان سلے کپڑے، مایو مہندی کا سامان، شادی کارڈ چھپوانا، بارات والوں کو بلاوے سمیت دعوت طعام کابھرپور انتظام ۔ 

شادی کی دعوت آپ ایس ایم ایس پر نہیں دے سکتے۔ خود گھر گھر جانا پڑتا ہے۔ 
پہلے مایو اور پھر مہندی پر رقم اجڑتی ہے ، بارات میں گاڑی والے کا خرچہ، ڈھول باجے ، پیسے لٹانا ، شادی ہال ، مووی میکر، فوٹو گرافر اور کھانےوغیرہ کا خرچہ۔
ولیمے کے دن لڑکے والے ایک ہاتھ آگے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات مقروض بھی ہو جاتے ہیں۔

یہ سب ہماری غلطیاں ہیں جو ہماری نسلوں کے لیے مسائل کھڑے کرتی جا رہی ہیں ۔۔۔ ہمیں ان فضول رسموں کو ترک کر کے ایسی رسمیں بنانی چاہئیں جن میں خرچہ کم سے کم ہو تاکہ غریب کا بھرم بھی رہ جائے اور اہم فریضہ بھی انجام پاجائے۔ نکاح بہت پیاری سنت ہے اسے فرسودہ رسومات کی وجہ سے مشکل نہ بنائیں۔
اگر شادیوں میں رسومات کا سلسلہ برقرار رہا تو زنا کو روکنا مشکل ہو جاۓ گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]