محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


بدقسمتی اس ملک و قوم کی کہ جہاں پر اس ملک و قوم کو کرپٹ بدمعاش ناہل حکمران ملے،اور انہوں نے ہر طرح سے اسے نقصان پہنچایا ٹھیک اسی طرح کچھ مذہبی عناصر بھی اس میں شامل رہے،،اگرچہ مذہبی پارٹیوں کا طریقہ واردات مختلف رہا۔

اور ان مذہبی پارٹیوں جماعتوں اور گروہوں کے اوپر دست شفقت رکھنے والے بھی ہمارے ماضی کے سیاسی لیڈر  رہے ہیں، جس کی وجہ سے آج ہر محلے ہر گلی سے فرقہ پرستی کی بو آ رہی ہے، بجاۓ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے حکمرانوں اور لیڈروں نے پاور کا ناجائز استعمال کرتے ہوۓ اس آگ پر تیل چھڑکنے کی کوشش کی۔
جس کی تازہ مثال یکم محرم الحرام کو سندھ حکومت کی طرف سے اہلسنت والجماعت کے جلوسوں پر پابندی سے واضح ہے،،
یاد رہے میں نے سندھ حکومت کے اس فیصلے کو خوش آئند کہا تھا، اور مطالبہ کیا تھا کہ ہر صوبہ اور وفاق کو بھی چاہیے کہ سڑکوں پر ہونے والے تمام جلوسوں کو ان کی عبادت گاہوں تک محدود رہنے پر پابند کیا جاۓ،،جس کے بدلے ایک مفتی صاحب نےمجھے بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔

پاکستان میں آج تک جو بھی لیڈر آیا ہے، اس نے قومی سطح پر اپنے مسلکی لوگوں پر نوازش کرتے ہوۓ مخالفین مسالک کے خلاف پس پردہ کام کیا ہے،،،،

سندھ حکومت کی طرف سے اہلسنت والجماعت کے جلوسوں پر پابندی لگانے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہیے تھا کہ اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں، پابندی کے باوجود اہلسنت والجماعت نے کراچی سمیت ملک بھر سے جلوس نکالے، سندھ حکومت کی پابندی کے باوجود اتنی بڑی عوام کا سڑکوں پر نکلنا اور حکومتی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھنا بھی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، حکومتی رٹ کل کہیں پر نظر نہیں آئ اسے کہا جاتا ہے حکومت کی بدترین ناکامی،،،
اور اگلی بات اگر حکومت کو پابندی لگانی ہی تھی، تو تمام مذہبی جلوسوں پر لگائ جاتی، تو ممکن ہے کہ کل اہلسنت والجماعت بھی جلوس نہ نکالتی، اور حکومت سندھ کی بےعزتی نہ ہوتی، ایسی صورتحال سے فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے حکومتی اداروں اور حکمرانوں کو چاہیے کہ بلا امتیاز سب پر نظر رکھیں، اور ریاستی رٹ قائم کریں، نہ کسی سے دشمنی پالیں اور نہ ہی کسی کو منظور نظر بنائیں۔

 اہلسنت والجماعت کا اکثر مطالبہ ہوتا ہے کہ اہل تشیعوں کے جلوسوں پر سڑکوں پر آنے پہ پابندی عائد کی جاۓ،،مگر حیرت یہ ہے کہ جب یہ سنہری موقع ان کے ہاتھ آیا، سندھ حکومت نے ان کے جلوسوں پر پابندی عائد کی تو حق یہ تھا وہ اس پابندی کو صدق دل سے ویلکم کرتے اور تمام مذہبی جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے، مگر انہوں نے پابندی کے خلاف صوبائ حکومت کو دھمکی دے دی کہ اگر ہمیں روکا گیا تو ہم وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔

اب مخالفین کے جلوسوں پر پابندی کا مطالبہ کس بنیاد پر کرو گے، تم جلوس نکالو تو جائز وہ نکالیں تو ناجائز،،، تم اپنی اس ضد پہ اڑے ہوۓ جلوسوں کے مقابلے کروا رہے ہو  اور غریب عوام کا ستیاناس ہو رہا ہے،،

خلفاءراشدین کے ایام پر دیوبندی سڑکوں پر، محرم میں اہل تشیع سڑکوں پر ربیع الاول میں بریلوی سڑکوں پر خدا کے بندو کیوں نہیں اپنی عبادت گاہوں کے اندر رہ کر یہ سب کام کرتے ہو؟ 
کہتے ہیں ہمارے تو مطالباتی جلوس ہوتے ہیں، ارے خدا کے بندو مطالباتی جلوس ہوتے ہیں تو سیدھے جاؤ اسلام آباد اپنے سارے مطالبات ایک بار منوا کر اٹھنا، اس طرح تمھارے مطالبات ماننے شروع کیئے تو بڑی لمبی قطار بنے گی، تم نے خلفاء راشدین کے بعد عشرہ مبشرہ کے ایام  تعطیل کا مطالبہ شروع کر دینا ہے۔
اہل تشیعوں نے بارہ اماموں کے ایام پر تعطیل کا مطالبہ کر دینا ہے۔ اوپر سے جب بریلوی بھائ اٹھے تو انھوں نے شیخ عبدالقادر جیلانی سے شروع ہو کر مولانا احمد رضا صاحب تک سب کی تعطیل کا مطالبہ کر دینا ہے۔

اس دوڑ میں اہلحدیث بھی پیچھے نہیں رہینگے کہیں گے چلو زیادہ نہ سہی علامہ ابن عبدالوہاب کے ایام کو تو منانا چاہیے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ان مقدس شخصیات کو اگنور کیا جاۓ یہ تمام مقدس شخصیات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے، ان کی عظمت کو لوگوں تک پہنچانا چاہیے مگر ان کے نام پر سڑکوں کو بلاک کرنا عبادت نہیں گناہ ہے،،،،،

میرے نزدیک تمام خلفاء راشدین تمام صحابہ اکرام ازواج مطہرات، اہلبیعت ، امام زین العابدین، امام باقر، امام جعفر، موسی کاظم، علی رضا، محمدتقی، علی نقی حسن عسکری اور انکے بعد آنے والے تمام اولیاء اکرام سب قابل قدر شخصیت ہیں اور میرے ایمان کا حصہ ہیں،،،

ان تمام شخصیات میں سے بتا دو کسی ایک کا حکم ہو کہ جاؤ اور سڑکوں کو بند کر دو،، راہگیروں مسافروں مریضوں کو تکلیف دو کسی کا کوئ ایک فرمان آپ کو نہیں ملے گا۔

ہر مذہب کے اندر اس کی عبادگاہوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ملتا ہے،،،، اگر قرآن و حدیث میں کہیں پر سڑکوں پر عبادت کے زیادہ ثواب کا کہا گیا ہو تو مجھے بھی بتا دیجیئے گا۔ 

درحقیقت بات یہی ہے کہ سڑکوں پر صرف ایک دوسرے کو چڑانے کے لیے نکلا جاتا ہے، اور اس مصیبت میں پھنسنے والی غریب عوام ہوتی ہے، غریب دکاندار موچی ریڑی والوں کو چھٹی دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے کہ آج جاؤ گھر اس راستے سے جلوس نکلنے والا ہے،،،
ایک لمحے کے لیے وہ بھی سوچتا ہو گا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کی نفری تعینات ہوتی ہے سیکیورٹی دینے کے لیے جس سے قومی خزانے پر اثر پڑتا ہے، اضافی اخراجات سے،،، بہتر ہے ہم فرقہ پرستی سے نکل کر مسلمان ہو کر سوچیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جلوسوں کے مقابلے کے بجاۓ اس ملک و قوم پر رحم کر دیں۔ جب اقتدار کے حصول کی بات آتی ہے تو یہ  تمام تر مسلکی اختلافات کو بھلا کر سب لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں،،، پھر ایک دوسرے کے بوسے بھی لیتے ہیں اور جب بات دین مذہب کی ہو تو اپنی اپنی دکان کھول لی جاتی ہے۔

اس بارے موجودہ حکومت کو سوچنا چاہیے، اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ، بہترین پلان بنایا جاۓ جس میں نفرت انگیز تقاریر لٹیچر صحابہ اکرام سمیت تمام مقدس شخصیات کو برا بھلا کہنے والوں کے لیے سخت سزا مقرر ہو اور اس پر عمل درآمد بھی یقینی ہو۔

ریاست ماضی کی طرح تماشا دیکھتی رہی سیاسی لیڈر اپنے مسلک و مذہب والوں کے ساتھ بھلائ اور مخالفین کے ساتھ ظلم کرتے رہے، جرنیل اپنے من پسند افراد کے خیرخواہ رہے، میڈیا، میرٹ کے بجاۓ مذہب مسلک اور بیرون فنڈنگ کرنے والوں کا ماتحت رہا تو ملک شام، عراق کی طرح خانہ جنگی کی طرف بڑھے گا،،، وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت تمام مسالک کے علماء کی مشترکہ کانفرنس بلاۓ اور فرقہ واریت اور جلوسوں کے مقابلوں کے خاتمے پر کام کرے،،،،،،

مقدس شخصیات کے ایام پر چھٹیاں منانے کے بجاۓ ان کی سیرت و فضیلت میں سیمنار منعقد کراۓ ان کی خدمات کو بیان کیا جاۓ۔

اور ہر مذہب و مسلک کو پابند کیا جاۓ کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں یا کسی گراؤنڈ کا انتخاب کرے اپنی مخصوص عبادت کے لیے سڑکوں پر آنے پر سزا مقرر کی جاۓ۔

پوسٹ بہت کڑوی ہے، یقیناً تمام مسالک کے لوگوں کو پسند نہیں آۓ گی سواۓ اس کے جو بڑے دل والا اور غیرجانبداری سے سوچنے والا ہے۔

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛محمداشرف؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]