محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


"17سال گزر گے مختاراں مائی اجتماعی زیادتی کیس انجام کو نا پہنچ سکا
2002میں پنچائیت کے فیصلے پر 14افراد نے مختاراں مائی نامی عورت کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا مختاراں مائی نے 14افراد کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا اگست 2002میں انسداد دہشتگرڈی کی عدالت نے 14میں سے 8افراد کو بری کردیا اور 6افرد کو سزائے موت سنادی 2005میں ہائی کورٹ ملتان بینچ نے اپیل پر فیصلہ کرتے ہوئے 6میں سے 5افراد کو بری کردیا اور ایک مجرم کی سزائے موت توڑ کر اسے عمر قید میں تبدیل کردیا جسکے خلاف مختاراں مائی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی 2011میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ ملتان بینچ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے مختاراں مائی کی اپیل خارج کردی دوبارہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دوبارہ سپریم کورٹ میں دے دی گئی جس پر ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا اسلامی جمہوریہ کا سب سے بڑا اجتماعی زیادتی کا سکینڈل 17سال گزر جانے کے بعد انجام کو نہیں پہنچا

لیکن مختاراں مائی اس سکینڈل کے بعد شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی یورپ سے بہترین اور بہادر خاتون کا پرائز حاصل ہوا اسکے بعد ماڈلنگ کی آفرز آئی 2016میں روزینہ منیب کے تیار کردہ ملبوسات کی نمائش کے لئے مختاراں مائی نے ریمپ پر واک کی جسے دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور حکومت نے مختاراں مائی کے اس قدم کو اساس کمتری کا شکار خواتین میں شعور اجاگر کرنا کہا گیا مختلف ممالک سے فنڈنگ ہوئی جس سے مختاراں مائی ویلفیئر بنائی گئی اک گینگ ریپ کا شکار خاتون کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا گیا لیکن انصاف دیکر معاشرے کو مزید ایسی برائیوں سے بچانے کے لئے ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا نا دی گئی۔


 اس وقت کے حاکم پرویز مشرف کا کہنا تھا مختاراں مائی کی شہرت دیکھ کر ہر عورت مختاراں مائی بننا چاہتی ہے اگر اس کیس کے ملزمان کو چوراہے میں لٹکا دیا جاتا تو نا زینب قتل ہوتی نا موٹر وے پر عزتیں لٹتی ہمارا معاشرہ عدلیہ اور حکومت مظلوم کو شہرت یا مالی امداد کے بجائے اگر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے تو تب جاکر ظلم اور زیادتیاں ختم ہونگی پھر جاکر ہمارے بچے بچیوں اور خواتین کی عزتیں محفوظ ہونگی اگر زیادتی کی شکار ہر عورت کو سونے کا محل بناکردے دیں اور مجرمان کو بدلے میں آزاد کردیں تو اگلا شکار ہماری خواتین میں سے کوئی ہوگی اس لئے یہ فنگ امداد پرائز شہرت ماڈلنگ کے بجائے ملزمان کو پھانسی دو بس اگر ظلم ختم کرنا ہے 

یہ ریاست اسلامی بھی ہے ساتھ جمہوری بھی اور آزاد بھی ہے  لیکن یہاں قانون انگریز کا چل رہا ہے کیونکہ ہم نے انگریزوں سے ملک آزاد نہیں کرایا بلکہ تقسیم کرایا ہے اس لئے قانون معمولی ردو بدل کے بعد انگریز کا ہی رائج رہا اور یہ ہی تلخ حقیقت ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]