محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


تتلی

بھنبھناتے ہوئے کیڑے مکوڑے جب کاٹتے ہیں یا کھانے میں گر جاتے ہیں تو یقیناً آپ کو غصہ آتا ہو گا۔ لیکن انھیں مارنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

یہ کیڑے مکوڑے خوراک کی پیداوار اور ایکو سسٹم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایکو سسٹم کا مطلب ہے وہ نظام جس کے تحت جانوروں، پودوں اور بیکٹریا سمیت تمام جانداروں کی زندگیوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے۔

لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی سینیئر کیوریٹر ڈاکٹر ایریکا میک السٹر نے بی بی سی کے پروگرام کراؤڈ سائنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم دنیا سے تمام کیڑے مکوڑے نکال دیں تو ہم بھی مر جائیں گے۔‘

ہم ہلاک ہو جائیں گے‘

کیڑے مکوڑے حیاتیاتی ڈھانچوں کو توڑتے ہیں جس سے ان کے گلنے سڑنے اور تحلیل ہونے کے عمل میں تیزی آتی ہے۔ اس طرح مٹی کو تازگی ملتی ہے۔

یونیورسٹی آف سسکس کے پروفیسر ڈیو گولسن کا کہنا ہے کہ گرم ماحول کی وجہ سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے کیڑوں کی آبادی میں خوب اضافہ ہو گا کیونکہ ان کے ایسے تمام دشمن، جن کی بچے پیدا کرنے کی رفتار کم ہوتی ہے، ختم ہو جائیں گے۔

’یہ بہت ممکن ہے کہ ہمیں ہر طرف کچھ مخصوص کیڑے وباء کی طرح نظر آئیں اور وہ خوبصورت اور شاندار کیڑے مکوڑے جنھیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اگردگرد موجود ہیں، مثلاً شہد کی مکھیاں اور تتلیاں وغیرہ سب ختم ہو جائیں۔

کیڑے مکوڑوں کو کیسے بچایا جائے؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ اِس صورتحال کی بہتری کے لیے اقدادمات کیے جائیں۔

ڈاکٹر سانچیز بایو ان اقدامات کے بارے میں بتاتے ہیں ’ایسے علاقے بحال کیے جائیں جہاں دور دور تک درخت، پودے اور پھول ہوں، بازاروں سے خطرناک قسم کی کیڑے مار ادویات ختم کر دی جائیں اور کاربن میں کمی کرنے والی پالسیوں پر عمل درآمد جیسے اقدامت سے صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انفرادی طور پر اگر لوگ آرگینک خوراک کی طرف مائل ہو جائیں تو اِس سے بھی کیڑے مکوڑوں کی قسمت بدلنے میں مدد ملے گی۔

’اِس طرح کاشتکاروں کو اپنے کھیتوں میں کیڑے مار ادویات کم استعمال کرنے کی ترغیب ملے گی اور ماحول میں ان زہریلی ادویات کا اثر کم ہو جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]