محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



عقیدہ امامت اور خلفاء راشدین

سب سے پہلے ہم سنیوں کے عقائد کو بیان کرتے ہیں۔
سنی اکثریت جس میں بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث شامل ہیں کا عقیدہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کے تمام صحابہؓ برحق سچے اور جنتی ہیں، صحابی کہتے کسے ہیں؟ (جو ایمان کی حالت میں حضور نبی کریمﷺ کا دیدار کرے وہ صحابی کہلاتا ہے)
اہلسنت کا عقیدہ ہے حضور نبی کریمﷺ پر ابتداء اور بعد میں ایمان لانے والے تمام صحابہؓ آسمان کے ستاروں کی مانند روشن اور ہدایت کا ذریعہ ہیں کسی ایک صحابیؓ کی پیروی کرنے والا بھی سیدھے راستے پر ہے۔ اور اسی طرح کسی ایک صحابیؓ کی گستاخی کرنے والا گناہگار بےادب اور یہاں تک کہ کافر تک مانا جاتا ہے۔
تمام صحابہ اکرامؓ میں سے عشرہ مبشرہ کا نام صحابہؓ کی فہرست میں اول ہے جن میں ابوبکرصدیقؓ، عمربن خطابؓ، عثمان غنیؓ، علی المرتضیؓ، زبیرؓ،طلحہؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ، ابوعبیدہ بن جراحؓ، سعدبن ابی وقاصؓ، سعیدبن زیدؓ شامل ہیں۔
اور عشرہ مبشرہ میں سے چار صحابہؓ کو بلند مرتبہ و مقام حاصل ہے جن میں ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ کا شمار ہوتا ہے جنہیں خلفاء راشدین کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اللہﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد نظام حکومت کو چلا کر قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے معاملات زندگی اور طرز حکمرانی کا طریقہ متعارف کروایا۔ 
ان چار صحابہؓ میں سے ابوبکرصدیقؓ اور فاروق اعظمؓ حضورﷺ کے سسر تھے جبکہ عثمانؓ اور علیؓ آپﷺ کے داماد تھے۔ 
ان رشتوں سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ لوگ نبی کریمﷺ کے کتنے قریب اور کتنے محبوب ترین تھے۔ حضورپاکﷺ کی کئ مبارک حدیثیں آپ کو ملیں گے جن میں خلفاءراشدین اور دیگر صحابہؓ کی انفرادی طور پر فضیلت و مقام بیان کیا گیا ہے۔
اہل بیتؓ اور صحابہؓ اکرام کو دو حصوں میں تقسیم کر کے الزام تراشی کو اہلسنت کے ہاں درست نہیں سمجھا جاتا۔

یہ رائے تھی اہلسنت کی صحابہؓ و خلفاء سے متعلق۔ عقیدہ امامت پر اہلسنت کیا رائے رکھتے ہیں لکھنے سے پہلے خلفاء راشدین سے متعلق اہل تشیعوں کی رائے بیان کر دیتا ہوں۔

اہل تشیع عقائد کےمطابق حضورپاکﷺ کے دنیا سے جانے کے بعد چند صحابہؓ کے علاوہ سب صحابہؓ دین سے پھر گے تھے۔ ابوبکرصدیقؓ عمرفاروقؓ اور عثمان غنیؓ کی خلافت کو شیعہ عقائد میں سرے سے مانا ہی نہیں جاتا ان تین خلفاء سے متعلق شیعہ اکابر مصنفین نے بیشمار کتابیں لکھ رکھی ہیں، اور انکے عقائد کے مطابق امام مہدی کا جہاد سنیوں سے شروع ہو کر خلفاء کی قبروں تک جائے گا۔ معذرت کے ساتھ وہ الفاظ لکھنا میں مناسب نہیں سمجھتا جو اہل تشیع کتب میں موجود ہیں۔

اب آتے ہیں عقیدہ امامت اہلسنت اور اہل تشیع عقائد کی نظر میں کیا ہے؟

عقیدہ امامت کا آغاز اہل تشیع عقائد کی روشنی میں کرتے ہیں۔

اہل تشیع عقائد کے مطابق اولاد علیؓ سے چلنے والا سلسلہ اماموں کا ہے، جن میں بارہ معتبر امام مانے جاتے ہیں، جن کو پیغمبروں کی طرح معصوم مانا جاتا ہے۔ جن پر وحی کے نزول کا عقیدہ بھی رکھا جاتا ہے۔ اور امام جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا یہاں پر بارہ اماموں کے نام ایڈ کر دیتا ہوں۔
امام علی علیہ السلام
 امام حسن علیہ السلام
 امام حسین علیہ السلام
امام زین العابدین علیہ السلام
امام محمد باقر علیہ السلام
 امام جعفرصادق علیہ السلام
 امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
امام علی رضا علیہ السلام
امام محمد تقی علیہ السلام
امام علی نقی علیہ السلام
 امام حسن عسکری علیہ السلام
امام مہدی علیہ السلام
امام مہدی کو امام غیب اور بارواں امام بھی کہا جاتا ہے۔
شیعہ عقائد کے مطابق امام غیب بارواں امام عراق کے کسی پہاڑ میں موجود ہے جس کے پاس قرآن مجید کا چالیس پاروں والا اصلی نسخہ اور کچھ دیگر معتبر چیزیں جو پیغمبروں کے زیر استعمال تھی موجود ہیں۔ امام مہدی پہاڑ کے غار سے اس وقت باہر آئیں گے اس وقت نازل ہونگے جب 313پکے مومن شیعہ پیدا ہو چکے ہونگے۔ امام مہدی غار سے باہر آنے تک انہیں نہ تو کوئ سن سکتا ہے نہ کوئ دیکھ سکتا ہے۔ مگر دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر آپ امام غیب سے مدد مانگتے ہیں تو وہ سنتے بھی ہیں اور دعا کو قبول بھی کرتے ہیں۔

امام مہدی یعنی بارہواں امام زمین آسمان بنانے مٹانے سب کچھ کا اختیار رکھتے ہیں۔ یعنی جو شان خالق کائنات کی ہے وہ سب اہل تشیع عقائد کے مطابق امام مہدی کی بیان کی جاتی ہے۔
لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر تحریر لمبی ہو جائے گی بات کو سمیٹتے ہوئے عقیدہ امامت پر اہلسنت کا موقف بیان کر کے تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔

اہلسنت کے ہاں اہل تشیع کے گیارہ امام قابل عزت قابل احترام اور معتبر ہیں ان کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کا تصور بھی غلط ہے تاہم بارہویں امام سے متعلق اہلسنت کی یہ رائے ہے کہ امام حسن عسکریؒ جو شیعہ کے ہاں گیارویں امام تصور کیئے جاتے ہیں کی کوئ اولاد نہیں تھی لہذا شیعہ عقائد میں مانے جانے والے امام غیب امام مہدی والی روایت کو اہلسنت مسترد کرتے ہیں۔
اہلسنت علماءاکرام کے مطابق امام مہدی کے ظہور کو قرب قیامت کی علامات میں سے بیان کیا گیا ہے، امام مہدی کے نام، نسب، ظہور کا زمانہ اور خصوصی علامات احادیث میں متواترہ سے ثابت ہیں۔
 ان کے ظہور کا وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول زمانہ سے کچھ پہلے ہوگا، ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہوگا، مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے پھر مکہ تشریف لائیں گے تو لوگ ان کو پہچان کر مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان بیعت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے۔

 امام مہدی خلیفہ ہونے کے بعد روئے زمین کو عمل اور انصاف سے بھردیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انھیں کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔امام مہدی ملک شام جاکر دجال کے لشکر سے جہاد و قتال کریں گے اس وقت دجال کے ساتھ ستر ہزار یہودیوں کا لشکر ہوگا۔

تحریر میں کمی کوتاہی پر معذرت  بقلم: محـــمد اشــــرف

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]