محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


وہ میرے نکاح کی رات تھی
- ایک اَن چاہا نکاح-
- مولوی صاحب آنے ہی والے تھے - ایسے میں ہر طرف گہما گہمی تھی مگر کہیں گہرا سکوت بھی تھا -
جہاں وہ کھڑا تھا -
جہاں میں بیٹھی تھی -
اور جہاں سینے میں بائیں طرف ہمارے دل دھڑکتے تھے -
وقت کا کام تھا گزرجانا تو وہ دھیرے دھیرے گزرتا رہا -اُس ظالم کو اِس سے کیا کہ اُس کے گزرجانے سے کس کس پر کون کون سی قیامت گزر جاتی ہے-
اُسے اس سے کیا - وہ تو بے پرواہ ہے - وقت کو بھی بھلا کبھی کسی کی پرواہ ہوئی ہے جو وہ میری اور اُسکی پرواہ کرتا- ہماری سات سالہ محبت اِس قابل تھی ہی کہاں کے کوئی اس کی پرواہ کرتا -
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوجانے کے بعد بھی میں اُسی شخص کو سوچ رہی تھی جو آج میرے سامنے سر جھکائے جانے کیسے ہمت کیے کھڑا تھا -
سفید شلوار کُرتے میں وہ مجھے ہمیشہ بے حد اچھا لگا کرتا تھا اور آج اُسی رنگ کے جوڑے میں پتہ نہیں وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا یا برا بس میرا دل چاہ رہا وہ یہاں سے پلک جھپکتے میں اوجھل ہوجائے مگر ...
ہاں مگر مجھے اپنے کُشادہ سینے میں چھپائے - اس بے درد دنیا سے زرا پرے لے جائے
خیر دل کے چاہنے سے بھلا ہوتا ہی کیا ہے -جو اب کچھ ہوتا-
میں نے نظریں اُٹھا کر اُس کی جُھکی نظریں دیکھیں تو سینے میں بہال ہوتیں سانسیں اٹکنے لگیں تھیں - وہ نظریں جُھکائے مجھے کبھی کیسا دلکش لگا کرتا تھا اور آج انہیں نظروں کو جھکائے وہ کتنا شکست خردہ لگ رہا تھا- میری آنکھ بھٹکتی ہوئی اُس کی کلائی پر بندھی کالی ڈوری پہ اٹک گئی ...
جسے کبھی میں نے اس کے ہاتھ پر باندھا تھا
وہی ہاتھ جسے تھام کر میں کبھی گھنٹوں چلا کرتی تھی -
وہی کالی ڈوری جس پر کبھی میں وقت بے وقت اپنی شہادت کی انگلی پھیرا کرتی تھی اور یکدم اس کی چلتی نبض پر ہاتھ رکھ کر میں اُسے محبت سے تکا کرتی تھی -
پلکیں جُھکائے اُسے اُس کی چلتی نبض کی اہمیت بتایا کرتی تھی - اور آج جیسے وہ چلتی نبض میں خود ہی روکنے والی تھی -
سفید جوڑے پر لال چُنری اوڑھے میں اپنے لباس سے اس شخص کی مہک محسوس کرسکتی تھی جو میرا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں رہا تھا -
کل ہی کی تو بات تھی جب وہ میرے کمرے میں یہ جوڑا لیے آیا تھا -
مائیوں کے پیلے جوڑے میں کرسی سے کمر ٹکائے خاموشی کی قفل سجائے آنکھیں موندیں شاید میں اُسے کوئی اُداس غزل لگی تھی -
وہ عین میرے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا -
میں بند آنکھوں سے بھی اُس کی موجودگی کو دیکھ سکتی تھی -
مجھے اُس کے قدموں کی چاپ حفظ تھی -
مجھے اُس کے جسم سے اُٹھتی خوشبو ازبر تھی -
خاموش کمرے میں اُس کی آواز گونجی تو میرا دل تھم سا گیا
یہ شادی مت کرو۔
پتہ نہیں التجا تھی یا کوئی بھیک مگر میری بولنے کی سکت کھو گئی تھی - بند آنکھوں سے کوئی شے کسی لکیر کی صورت میرے گالوں پہ لڑھک گئی تھی - میری خاموشی پر اُس نے اپنا بھرم رکھنے کو بات جاری کی -
یہ شادی مت کرو اگر میں تم سے یہ کہوں گا تو تم نہیں مانو گی جانتا ہوں اِسی لیے کہنے سے گریز پا ہوں - مگر ایک بات تو مان سکتی ہو نہ ?
کیا - میری بند آنکھیں کھلنے سے انکاری تھیں مجھے لگا میں آنکھیں کھولوں گی تو وہ غائب ہوجائے گا اور مزید آنکھیں بند رکھوں گی تو میں خود پتھر کی ہوجاؤں گی - اسی لیے پتھر کا ہوجانا قبول کیا- مگر میں پتھر کی ہو نہ سکی-
یہ جوڑا ہمارے نکاح کے لیے خریدا تھا میں نے میں چاہتا ہوں یہ ہمارے نکاح پہ نہ سہی تم اپنے نکاح پر پہن لو - کیا ایسا ممکن ہے - کمال ضبط تھا اُس کا - میں نے چاہا وہ غائب ہوجائے تو میں نے آنکھیں کھول دیں مگر وہ غائب نہ ہوا-
تم ... میرا جملہ میری زبان کی دہلیز پر ہی رہ گیا میری گود میں رکھا اُس کا سر مجھے گونگا کر گیا ۔ انکار مت کرنا - میری ہچکیوں کے ساتھ اُس کی بوجھل آواز اُبھری ۔ پھر وہ بہت دیر تک میری گود میں سر رکھے بیٹھا رہا پھر یکدم اُٹھا اور جانے لگا
تھوڑی دیر اور رک جاؤ - میرے لفظ اُس کے قدم روک گئے میں اس کی پشت دیکھتی رہی-
آنکھوں کی پیاس بجھاتی رہی -
پھر یہ پیاس کہاں مٹ پانی تھی-
پھر یہ لمحہ مُیسر ہی کب آنا تھا
میں تم سے کہوں کہ تم رُک جاؤ تو کیا تم رُک جاؤگی - نہ جانے وہ مجھے بتا رہا تھا یا پوچھ رہا تھا ۔تم جانتے ہو ابا مرنے والے ہیں میں انکار کر کہ انھیں اپنے ہاتھوں سے وقت سے پہلے نہیں مار سکتی۔ تم چاچو کو نہیں مارسکتی اِسی لیے مجھے مار رہی ہو ۔ یوں مت کہو - میں بھلا تمھیں کیسے مار سکتی ہوں۔ مگر میں لمحہ لمحہ مر رہا ہوں اور تم دیکھنا میں مرجاؤں گا - جی تو میں بھی نہیں رہی مگر تم مر بھی تو نہیں رہی۔ تم چاہتے ہو میں مرجاؤں ? نہیں میں چاہتا ہوں تم مجھے مرتا دیکھو تم میری محبت کا جشن نہ منا سکی تو کیا ہوا میری موت کا سوگ تو منا ہی لو گی - چلتا ہوں میں نکاح میں ضرور آنا
کیوں ? اتنی جلدی مجھے مرتا دیکھنا چاہتی ہو ...
اتنی آسانی سے کوئی نہیں مرتا۔ وہ لمحہ بھر چپ رہا اور پھر چل دیا - اگر اس لمحے بین کرنا ممکن ہوتا تو میں کر گزرتی مگر کچھ نہ کر سکی اور نتیجتہََ اب اس کا تحفتہََ دیا ہوا جوڑا پہنے کسی اور کی دلھن بنی بیٹھی تھی۔
نکاح کے کلمات ادا ہوئے 
دل چاہا کے بھاگ جاؤں مگر جھکے سر سے بس اتنا کہہ سکی قبول ہے ۔اچانک کوئی سیاہ ڈوری اس شخص کے قدموں کے پاس آگری میں جانتی تھی وہ ڈوری کونسی تھی قبول ہے ۔ یکدم کوئی ننھا  سا موتی اُس شخص کے قدموں کو چوم گیا
میں جانتی تھی وہ موتی کونسا تھا ۔لڑکھڑاتی زبان سے ایک بار پھر قبول ہے اور پل بھر میں ہی وہ شخص پورے قد سے زمین بوس ہوگیا ۔مگر میں لمحہ لمحہ مر رہا ہوں۔ اُس کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ اور تم دیکھنا میں مر جاؤں گا۔ اتنی آسانی سے کوئی نہیں مرتا - میرے اپنے لفظ مجھے گھائل کر گئے چیخ و پکار میں سب گڈمڈ ہو رہا تھا میں نے سنا کسی نے کہا اُسے دل کا دورا پڑا اور وہ مرگیا۔ 
کاش میں بتا سکتی اُسے میری محبت نگل گئی ۔ میرا ہونا اُسے کھا گیا۔ محبت نہ مری میرا محبوب مر گیا ۔ گویا ہجر کا موسم آن ٹہرا ۔ لمحہ لمحہ میں بھی مرنے لگی مگر میں اتنی آسانی سے آج تک نہیں مری جیسے وہ مرگیا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]