محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

مولانا عبدالقادر صاحب کا تعلق گجر قوم سے میاں برادری میں سے ہے، مولانا عبدالقادر صاحب میاں محی الدین مرحوم عرف(باڑی والابابا) کے پوتے، میاں عبدالحیی مرحوم کے اکلوتے صاحبزادے  اور مولانا عبدالرشید صاحب  (خطیب کیوائ) کے بھتیجے ہیں۔ مولانا عبدالقادر صاحب عالم دین ہیں اور گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں پہلی بار سیاست میں حصہ لیا اور ویــلج کونسل گھنول سے جنرل کونسلر کی سیٹ پر کامیابی سمیٹی۔ مولانا عبدالقادر صاحب سیاست میں آنے سے قبل بھی اپنے بہترین اخلاق و کردار کی بناء پر اہل علاقہ کی نظروں میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔

مولانا عبدالقادر صاحب کی دین داری اور حسن اخلاق ہی الیکشن میں ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ بنی۔ گزشتہ بلدیاتی الیکشن سے قبل جب مجھے معلوم ہوا کہ خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ پرانے امیدواروں کے نام گردش کرنے لگے، اور ذہن میں یہ طے کر لیا کہ اب کی بار میاں رفیق حسین درویشی کو ووٹ دیا جائے گا۔ اور یہی میری زندگی کا پہلا ووٹ تھا جو بلدیاتی الیکشن میں دیا، اس سے قبل2013کے عام انتخابات میں بھی آئ ڈی کارڈ بن چکا تھا مگر میں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس قدر شوق تھا، تو بحرحال میں نے ایک دوست سے معلوم کیا کہ کون کون الیکشن لڑ رہے ہیں۔ تو اس نے امیدواروں کے نام بتائے جن میں مولانا عبدالقادر صاحب کا نام بھی شامل تھا۔

تو اسی وقت میں نے بغیر سوچے سمجھے بغیر کسی سے مشاورت کیئے یہ فیصلہ کر لیا کہ ووٹ مولانا عبدالقادر صاحب کو دونگا، اور اسی وقت ایک ٹیکسٹ پیغام بھی ان کو بھیج دیا یقین دہانی کے لیے، کسی بھی شخص کو نمائندہ منتخب کرنے کے لیے اس کے کردار یا اس کی سرگرمیوں کو دیکھا جاتا ہے۔ مگر مولانا عبدالقادر صاحب کے بارے میں یکدم حتمی فیصلہ کرنا بھی کوئ عجوبہ نہیں بلکہ ان کی تمام لائف ہمارے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھی جس کی وجہ سے ضمیر نے ان کے حق میں ووٹ دے دیا۔

میں نے اب تک کی اپنی زندگی میں یہ نہیں سنا کہ مولانا عبدالقادر صاحب کا کسی پڑوسی یا رشتےدار غیررشتےدار سے کبھی کوئی جھگڑا ہوا ہو، جو کے انکے بہترین اخلاقی معیار کی نشانی ہے۔ مولانا عبدالقادر صاحب علاقہ بھر کی غمی خوشی دکھ تکلیف میں پہنچتے ہیں یہ ان کی پرانی روٹین ہے، ایک چیز کا یہاں تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے کئ قبروں پر میت کو دفناتے وقت مولانا عبدالقادر صاحب کو مٹی کا گارا ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر ڈالتے دیکھا ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے شاید مجھ سمیت کئی لوگوں نے مولانا عبدالقادر صاحب کو بلدیاتی نمائندہ بنانے کے لیے صدق دل سے سپورٹ کیا۔


الیکشن میں مولانا صاحب کی کامیابی کے بعد بھی انکے تیور نہیں بدلے ہر خاص و عام کے ساتھ پہلے سے زیادہ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ جس سے ان کی اعلی ظرفی اور دینداری نمایاں نظر آتی ہے۔ اور علاقہ کے مفاد کے کسی بھی معاملات میں دیکھا جائے تو مولانا صاحب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ گزشتہ جو بھائ محمد شوکت اور عمرفاروقی صاحب نے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کروایا تھا، اس میں بھی مولانا صاحب ان حضرات کے لیے بڑی حد تک معاون ثابت ہوئے۔ چونکہ یہ دونوں حضرات ایک اسلام آباد اور دوسرا ہریپور میں مقیم ہوتے ہیں تو گاؤں میں درپیش آنے والے کئ معاملات میں مولانا صاحب نے ان کی ہیلپ کی جس کا اظہار ٹورنامنٹ والے دن رات کو شوکت صاحب نے مجھ سے کیا، چونکہ ٹورنامنٹ کی تقریب مغرب کے وقت ختم ہوئ تھی اور اس کے بعد تقریباً عشاء کی اذان بھی ہمیں شوہال کے گراؤنڈ میں ہوئ تھی ٹینٹ سروس کا سامان اکٹھا کر کے واپس بالاکوٹ ٹینٹ سروس والوں کو پہنچایا۔ اور اس تمام تر کام میں مولانا عبدالقادر صاحب شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اگرچہ ان باتوں میں ہر ایک کو دلچسپی نہیں ہوتی مگر میں ایسی باتیں نوٹ کرتا ہوں میرے خیال میں یہ چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔


یہ تو وہ باتیں تھی جس سے تقریباً سب ہی لوگ اتفاق کرتے ہونگے۔ اب آتے ہیں اس جانب کہ مولانا صاحب کو جب عوام نے منتخب کیا تو انہوں نے عوام کے لیے کیا کچھ کیا؟

میری تحریر کا ٹائیٹل ہے اظہار خیالات تو ذہن نشین کر لیجیئے کہ یہ میری ذاتی رائے ہے آپکا اس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں اور اختلاف رائے کا پورا حق ہے۔

میری نظر میں مولانا عبدالقادر صاحب کی بطور بلدیاتی نمائندہ کارکردگی بہت بہترین رہی ہے۔ ماضی کی نسبت موجودہ بلدیاتی نمائندوں نے عوام کے مسائل کے حل کی کوشش کی ہے۔ جس میں کئ کام کرنے میں کامیابیاں حاصل کیں ہیں اور کئ ہدف تک رسائی حاصل نہیں کر پائے۔ مگر امید ہے کہ یہ تسلسل برقرار رہے گا۔ مولانا عبدالقادر صاحب اور ہمارے بلدیاتی نمائندگان نے علاقہ کے لیے کیا کام کیئے یہ تفصیلات پھر کبھی سہی انشاء اللہ آئندہ بلدیاتی الیکشن سے پہلے تمام تر تفصیلات پوری دیانتداری سے مکمل ثبوت کے ساتھ پیش کرونگا اگر زندگی رہی تو۔     فی الحال جو مجموعی صورتحال ہے وہ تسلی بخش ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مسائل ہمارے ابھی بہت باقی ہیں جن میں راستے اور پانی کے مسائل اولین ہیں۔ 

اگر ہم صرف ان مسائل کو دیکھیں جن کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا تو ہمیں یہی لگے گا کچھ بھی نہیں ہوا سب مسائل ادھر کے ادھر ہی پڑے ہیں۔ اور اگر ہم پوری دیانت داری سے غیر جانبداری کے ساتھ ہر اینگل کو دیکھیں ان کاموں کو بھی دیکھیں جو اس بلدیاتی حکومت نے کروائے ہیں تو ہمیں مثبت چیزیں نظر آئیں گی۔ میرے خیال میں جس علاقے میں پچھلے ستر سالوں میں کچھ کام ہوا ہی نہ ہو وہاں چار سال کی بلدیاتی حکومت کے لیے دودھ شہد کی نہریں بہانا بھی مشکل نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ 

جہاں پر ہم اپنے منتخب نمائندگان کی سستی یا ناقص پالیسی پر احتجاج کرتے ہیں وہیں ہمیں ان کے کیئے ہوئے بہتر کاموں کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن سے میرا شدید نظریاتی اختلاف ہے۔مگر ن لیگ کے ممبرضلع کونسل میاں عبدالماجد ایڈووکیٹ صاحب نے ڈسٹرک کونسل میں جو ہمارے علاقے کے لیے جد و جہد کی ہے اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اگرچہ خدانخواستہ یہ ہسپتال کا فنڈ کسی وجہ سے رک بھی جائے لیکن اس شخص کی کوشش کی تعریف تب بھی بنتی ہے۔

اسی طرح ہمارے علاقے کے منتخب بلدیاتی نمائندگان کی طرف سے کروائے گے کام بھی قابل تعریف ہیں ان پر ان کی حوصلہ افزائ بھی ہمارا فرض بنتا ہے۔


اس کے علاوہ میری علاقہ کے عوام سے ایک دردمندانہ اپیل بھی ہے!!!

ماضی میں ہم نے کبھی بھی اپنے ووٹ کی اہمیت کو نہیں پہچانا، ہماری کثیر تعداد ووٹ اپنے علاقے سے باہر گھنول کے منتخب امیدواروں کو دیتی رہی جس کی بدولت ہم کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

گھنول کے تمام امیدوار اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ کھولیاں کی عوام کا ووٹ کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے، چونکہ وہاں کئ امیدوار ہوتے ہیں اور وہاں کا ووٹ تقسیم ہو جاتا ہے اور کھولیاں کے  عوام کا ووٹ جس امیدوار کے حق میں پڑتا ہے وہ فائنل اور برتری دلا دینے والا ووٹ ہوتا ہے۔

اس لیے ہمیں اپنے ووٹ بنک کی اہمیت کو جاننے کی اشد ضرورت ہے۔ اور آئندہ الیکشن میں ایسی ترتیب رکھنی چاہیے جس سے ہماری کامیابی یقینی ہو۔ علاقہ کی مشترکہ  میٹنگ میں بلدیات کے لیے نمائندگان کے نام منتخب کیئے جائیں اور اس کے بعد کسی کو مشترکہ فیصلے کی خلاف ورزی نہ کرنے کا پابند بنایا جائے۔

اگر ہم نے پھر سے ایک نشست پر چار چار امیدواروں کو منتخب کر لیا تو پھر شاید ایک سیٹ بھی نہ نکال پائیں۔ علاقے میں ترقیاتی کاموں میں بلدیات کا اہم کردار ہوتا ہے اور بلدیات کی درست سلیکشن علاقے کے عوام پر منحصر ہوتی ہے۔

عوام چاہے تو اپنے مفاد میں بہترین فیصلے کرے چاہے تو اپنے ہاتھ میں آیا ہوا سنہری موقع گنوا دے۔ آئندہ الیکشن میں کون نمائندہ ہونا چاہیے یہ تو علاقے کے عوام نے طے کرنا ہے، مگر میری ذاتی رائے کے مطابق مولانا عبدالقادر صاحب کو دوبارہ منتخب کرنا علاقے کے مفاد میں ہے۔ ایک تو یہ شخص مکمل طور پر گاؤں میں رہائش پزیر ہے۔ دوسرا اپنے فرائض کو پوری نیک نیتی کے ساتھ نبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اپنے دور میں بہتر پرفارم بھی کیا ہے۔ اور کافی تجربات بھی حاصل کر لیے ہیں۔ اگر ہم علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہیں تو پھر ہمیں ذاتی اور رشتے داریوں کی ناراضگیاں گلے شکوؤں کو بالاطاق رکھ کر علاقے کی ترقی کے لیے مل کر مثبت قدم اٹھانا ہو گا۔ اگر کسی شخص سے ہماری ذاتی طور پر نہیں بنتی یا کسی بھی قسم کا اختلاف ہے مگر وہ شخص علاقے کے مفاد کے لیے بہتر ہے تو ہمیں اپنے آپ سے بڑھ کر اپنے علاقے کے مفاد کو ترجیح دینی ہو گی اور اس شخص کو سپورٹ کرنا ہو گا۔ اسی میں ہماری اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کی بہتری ہے۔


ازقلم::: محمد اشرف

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

1 تبصرہ:

  1. followo my website
    http://ashraf4pakistan.blogspot.com/
    follow my facebook
    https://www.facebook.com/profile.php?
    id=100012564732585
    Follow my facebook page
    https://www.facebook.com/ma4045243/
    Follow my plus google acccount
    https://plus.google.com/113082732602071539766

    جواب دیںحذف کریں

Bottom Ad [Post Page]