محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

العوامی فلاحی پلیٹ فارم کھولیاں درویش آباد کے نوجوانوں کی طرف سے آئندہ نسلوں کی سدھار کی ایک کوشش ہے، جس کے ذریعے علاقے میں تعلیم، صحت،کھیلوں سمیت دیگر کئ چیزوں پر کام کیا جانا ہے، جس سے آنے والی نسل کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ تعلیم اور بہترین تربیت بھی میسر آ سکے۔ 

العوامی فلاحی پلیٹ فارم کے بانی محمدشوکت اور محمدعمرفارقی سے کچھ عرصے سے میرے اچھے تعلقات ہیں، جس کی بدولت ان کی سوچ و فکر کو بخوبی جانتا ہوں۔ اگرچہ محمدعمرفاروقی سے برائے راست ملاقات تو کم ہی ہوتی ہے مگر جب بھی ملے علاقے کے مسائل بارے ان کو فکر مند پایا۔ اور محمدشوکت صاحب سے لاتعداد بار ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں۔ العوامی فلاحی پلیٹ فارم کا قیام بھی ایک احسن قدم ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ کھولیاں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ایسے نوجوان ملے جو اپنے علاقے کے لوگوں اور بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔

حالت حاضرہ میں دوسروں کے لیے وقت نکالنا انتہائی مشکل ہے چونکہ ہر شخص اپنی مصروفیات اور زندگی کو سلجھانے کے چکر میں الجھا بیٹھا ہے۔ ان حالات میں بھی جو لوگ وقت نکال کر اپنے معاشرے کے سدھار اور تعمیر و ترقی کے لیے عملی کوشش کرتے ہیں یقیناً وہ نایاب ہیرے ہوتے ہیں۔ 

تنظیمیں اور ایسے پلیٹ فارم بنتے ٹوٹتے اور ناکام بھی ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر اس کام کو لے کر چلنے والوں کا نیت خالصتاً رضاء الہی ہو تو پھر اللہ کی نصرت بھی شامل ہو جاتی ہے جو کامیابی کا سبب بنتی ہے۔

جس نیک نیتی کے ساتھ محمدشوکت اور عمرفاروقی صاحبان نے اس کارخیر کا آغاز کیا ہے اور جو ان کا عزم ہے جس انداز سے ان کو اپنے کام پر اعتماد ہے وہ وقت دور نہیں بہت جلد وہ اپنی منزل حاصل کر لیں گے۔

کھولیاں درویش آباد کے تمام نوجوان اس کام میں العوامی فلاحی پلیٹ فارم کا ساتھ دیں اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے محمد شوکت اور عمرفاروقی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔  

آج کے اس مشکل ترین دور میں ہم جہاں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو کر 50سال پیچھے چلے گے ہیں وہیں پر ہم اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے خودساختہ عذاب خود پر مسلط کرنے میں پچاس سال آگے بھی نکل چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم معاشی اور معاشرتی لحاظ سے کمزور ترین ہو چکے ہیں۔ اس سب کا کارن درست راہنمائی کا نہ ہونا ہے۔

جس طرح ایک ملک کے اندر قانون ہوتا ہے پالیسیاں بنتی ہیں وزراء کے اجلاس ہوتے ہیں، مسائل ڈسکس ہوتے ہیں پالیسیاں بنتی ہیں اور پھر ملک ان بہترین پالیسیوں کی بدولت ترقی کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح صوبے اضلاع تحصیل اور حتی کہ گھروں کے اندر جہاں ٹوٹل چھ سات لوگ مقیم ہوتے ہیں ان کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، آمدن کتنی ہے ماہانہ خسارہ کتنا ہے، خسارے کی کمی کے لیے اخراجات پر قابو کیسے پایا جانا ہے یہ تمام پالیسیاں گھروں میں بھی بنتی ہیں اور پھر گھر کا سسٹم بہتر انداز سے چلتا رہتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں وقت کا اولین تقاضا ہے کھولیاں درویش آباد کے بنیادی مسائل اور وہ مسائل جو ہمیں معاشی طور پر کمزور بنا رہے ہیں ہماری خوشیوں کو غموں میں بدل رہے ہیں ان تمام تر مسائل کے لیے اجتماعی طور پر مثبت پالیسی بنائ جائے تاکہ عوام الناس اس سے مفید ہو سکے۔

پانی، بجلی، سڑک، راستے،سکولز اتنے بڑے مسائل نہیں جتنے کچھ اور مسائل ہم نے اپنے لیے بنائے ہوئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم انہیں مسائل سمجھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ 

اسلامی تعلیمات میں اصول زندگی کہیں پر مشکل نہیں، مگر ہمارے علاقے میں 70فیصد اسلامی تعلیمات کی معلومات رکھنے والے علماء حفاظ اور قراء کی موجودگی میں ہم کیوں مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں۔ بڑی معذرت کے ساتھ میں کچھ چیزوں کی طرف اشارہ دلانا چاہتا ہوں۔ جو ہمارے علماء اور دیندار لوگوں کی عین ذمہ داری بنتی ہے مگر وہ خود کو اس سے مستثنی سمجھ بیٹھے ہیں۔ جہاں اللہ رب العزت نے لوگوں کو نیکی کی تلقین کی دعوت کا حکم دیا ہے وہیں برائی سے دور رہنے کا حکم بھی دیا ہے۔ 

ہمارے علاقے کے سادہ لوح عوام معاشرے میں چلنے والے خودساختہ رسم و رواج کو عبادت سے کم نہیں سمجھتے جبکہ قرآن و سنت کے مسائل سے واقف علماء یہ سب دیکھ کر بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ 

میرے معاشرے میں جہیز استطاعت سے بڑھ کر حق مہر اور ولیمے پر ہزاروں لاکھوں قرض اٹھا کر شادی کرنے کو حقیقی شادی یعنی سنت پر عمل پیرا ہونا سمجھتے ہیں جبکہ میرے علماء اس سنگین مسئلے پر لب کشائی کرنے سے قاصر ہیں۔ میرے علاقے میں مرنے والے کا تیجہ جمعراتہ چالیسواں غریب ترین لوگ بھی فرض سمجھ کر کرتے ہیں چاہے اس کے لیے قرض کیوں نہ لینا پڑھ جائے۔ جبکہ میرے علماء اس مسئلے کی گہرائی بھی بتانے کو تیار نہیں۔ 

میرے معاشرے میں بہن، بیٹی کی وراثت کو بڑے ڈھنگ سے ہڑپ کر لیا جاتا ہے مگر میرے علماء اور دیندار لوگ بہن بیٹی کی وراثت دلوانے کے لیے قرآن کی چار آیتیں پڑھ کر سنانے کو تیار نہیں۔ میرے معاشرے کا نوجوان اوور ڈیمانڈ اور لاکھوں روپے حق مہر کی رقم جمع کرنے کےلیے کئ سال وطن سے بے وطن رہتا ہے محنت مشقت کر کے شادی کے لیے بھاری رقم جمع کرتا ہے۔ اور جوانی میں بروقت شادی نہ ہونے سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے۔ مگر میرے معاشرے کے علماء اور دیندار اس ساری فلم کو آنکھوں دیکھنے کے بعد بھی نکاح کی شرعی حثیت بتانے کو تیار نہیں اور نہ رسم و رواج کے نقصانات سے آگاہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔


اکثر تبلیغ والوں کو میں نے کہتے ہوئے سنا کہ ہماری دعوت کا مقصد لوگوں کی زندگیوں میں مکمل دین آجائے؟  مگر میرے معاشرے کی ہر شادی ود آؤٹ دین اور رسم و رواج سے بھری ہوتی ہے۔ لیکن مجال ہے میرے علاقے میں کثرت رکھنے والے علماء حفاظ نے کبھی ان چیزوں پر اعتراض کیا ہو، بلکہ ہمارے دیندار گھروں ہمارے علماء اور حفاظ کے بہن بھائیوں اور بچوں کی شادیاں بھی انہی ناسور رسم و رواج کے سائے تلے ہوتی ہیں۔


کیا بحثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم ان رسم و رواج کے خلاف الم جہاد بلند کریں جو شرعی حکم کے خلاف بھی ہیں اور سنت پر عمل پیرا ہونے میں رکاوٹ بھی؟


شوکت صاحب کے ساتھ کئ بار اس ٹاپک پر بات چیت ہوئی غالباً دو بار تو ان ہی مسائل کو ڈسکس کرتے کرتے فجر کی اذان شروع ہو گئی۔ یہ ہیں ہمارے وہ مسائل جن کو ہم مسائل نہیں سمجھتے مگر ہماری معاشی اور معاشرتی زندگی کی بربادی کے ذمہ دار یہی مسائل ہیں۔ مجھے امید ہے العوامی فلاحی پلیٹ فارم اس مسئلے پر عملی اقدامات اٹھائے گا۔ اور ہمارے معزز علماء اکرام اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ان مسائل کی طرف دھیان دیں گے۔ اور انشاء اللہ ہمارا علاقہ خوشحال بھی ہو گا اور گردنواح کے علاقوں کے لیے آئیڈیل بھی بنے گا۔

العوامی فلاحی پلیٹ فارم کی نوجوان اور مخلص قیادت کی بہترین کاوش سے کھولیاں درویش آباد کا مستقبل سنورتا دیکھ رہا ہوں۔ اللہ کرے ہماری توقعات پر پورا اتریں اور ایک بہترین مثال پیش کریں۔

میں بھائ محمدشوکت صاحب اور عمرفاروقی صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے چراغ جلانے کی کوشش کی۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]