محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


آپ کو پتہ ہے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کو جو میجر ٹاسک دیئے تھے ان کو پورا کرنے کے پیچھے صرف توکل، فرمانبرداری اور وفا کا جذبہ تھا۔ یہ سارے ٹاسک  نظرئیے اور اسباب کی سائنس سے بالاتر تھے۔ جہاں اہل عقل و دانش حیران و پریشان رہ جاتے ہیں۔ 

بیوی اور بچے کو تنہا لق دق صحراء میں چھوڑ کر جا رہے ہیں تو اللہ سے یہ شکوہ کرتے نظر نہیں آتے کہ " یا اللہ میں ہی کیوں؟؟"

جوان بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم آتا ہے تو اللہ کو یہ کہتے نظر نہیں آتے کہ " بس یا اللہ!! یہ کام میری ہمت سے زیادہ ہے میں نہیں کر سکتا"

ویران میدان میں جہاں خوراک اور کاروبار زندگی کا مناسب انتظام بھی نہیں وہاں جب تعمیر کعبہ کا حکم آتا ہے تو اللہ کو تاویلیں دینے کھڑے نہیں ہو جاتے کہ " یا اللہ!! یہ جگہ تو مناسب نہیں ہے، میرا اور میرے بیٹے کا وقت اور محنت ضائع ہو جائیگی"

بلکہ حضرت ابراہیم اللہ کے ہر حکم کے آگے "دل سے" جھک جاتے ہیں اور دعائیں کرتے جاتے ہیں۔ 

ہاں تو جو رب ہے ناں، اس کو ہر ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے "دل" کی آزمائش مطلوب ہے۔ وہ "ایک لمحہ"، وہ ایک پل کی "کیفیت"، وہ ایک "فیصلہ کی گھڑی" کہ آپ کا "دل" راضی ہو جاتا ہے اور توکل کرتے ہوئے وفا کی خاطر " کر گزرنے" کی ٹھان لیتا  ہے۔۔۔۔۔ یا تاویلیں دیتا ہوا، شکوے کرتا ہوا " پیچھے ہٹ جانے"  کا فیصلہ کرتا ہے۔۔۔۔ہاں یہ بس ایک لمحے کا ہی تو فیصلہ ہوتا ہے، اور فیصلے ایک لمحے میں ہی تو ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔

تو یاد رکھیئے!! اللہ کا فیصلہ آ جائے تو "دل کا کام"  بس سر جھکانا ہوتا ہے، راضی ہونا ہوتا ہے، توکل کرنا ہوتا ہے۔ بس سارا معاملہ دل کا ہی ہوتا ہے۔ 

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]