محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

مشہور یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو پانچ مرتبہ تعمیر کیا گیا۔


پہلی مرتبہ فرشتوں نے بنایا -


دوسری مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا  -


تیسری مرتبہ ابراہیم علیہ السلام نے بنایا -


چوتھی مرتبہ قریش نے دور جہالت میں بنایا اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ  علیہ   وآلہ وسلم بھی موجود تھے ۔اس وقت آپ کی عمر 25 سال تھی ۔


پانچویں مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بنایا ۔ -


حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعمیر کعبہ 


جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کواللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ کی سرزمین پر چھوڑ  کرگے۔ ایک دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ملاقت اور خبرگیری کے لئے تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام زمزم کی جگہ کے قریب ایک درخت کے نیچے اپنے تیر درست کر رہے تھے ۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا

 اسمٰعیل اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے 


وہ کہنے لگے ٹھیک ہے جیسے اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے بجا لاے

 انہوں نے فرمایا آپ میری مدد کریں گے

 وہ کہنے لگے ضرور کروں گا 


سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بتایا

 مجھے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اللہ کا گھر بناؤ


پھر انہوں نے مل کر بیت اللہ کی بنیادی اٹھائیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام

 پتھر لاتے تھے۔ وہ سیدنا ابراہیم علیہ سلام عمارت بناتے تھے۔ اور جب عمارت اونچی ہو گئی تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام یہ پتھر "مقام ابراہیم" لائے اور والد محترم کے پاس رکھ دیا۔ تاکہ وہ اس پر چڑھ کرعمارت بنا سکے۔ دونوں بیت ۔اللہ کی تعمیر کے وقت اردگرد گھومتے ہوئے یہ دعا پڑھتے تھے 


اے ہمارے پروردگار  " یہ کام ہماری طرف سے قبول فرما یقینا تو خوب سننے والا جاننے والا ہے" ۔



قریش کی تعمیر کعبہ 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علان نبوت سے کچھ عرصہ قبل بیت اللہ پتھروں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اس کی اونچائی انسانی قد سے زیادہ تھی۔ کچھ لوگوں نے کعبہ کا خزانہ لوٹنے کا پروگرام بنایا جو کہ کعبہ کے اندر ایک کونے میں تھا۔ اس لیے قریش نے ارادہ کیا کہ اسے  مزید اونچا کر کے چھت ڈال دی جائے۔ اتفاق سے انہی دنوں سمندر نے جدہ  کے قریب ساحل کی طرف ایک جہاز پھینک دیا۔ قریش  نے اس کی لکڑی چھت کے لیے منتخب کی ۔


جب سابقہ عمارت گرانے کا وقت آیا۔ تو لوگ ڈرنے لگے۔ ولید بن مغیرہ نے گرانا شروع کردیا جب اسے کچھ نہ ہوا تو دوسرے لوگ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔


جب بیت اللہ کی امارت حجر اسود والی جگہ پہنچی گی تو ان لوگوں میں جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ حجر اسود نصب کرنے کی سعادت اسے نصیب ہو۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے سے لڑائی کے لیے تیار ہوں گے۔آخرکار ان میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کل جو شخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوگا۔ وہ جو فیصلہ کرے گا ہم سب اس پر راضی ہیں ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اگلے دن سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ آپ کو دیکھ کر سب کہنے لگے یہ امانت دار شخص ہے ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں ۔


جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو انہوں نے پوری صورتحال آپ کے سامنے پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا! میرے پاس ایک کپڑا لاو۔ کپڑا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجراسود اس میں رکھ دیا۔ اور فرمایا ہر قبیلہ اس کا کوئی نہ کوئی کنارہ پکڑ لے۔ پھر سب مل کر اٹھائیں۔ جب اس طرح اٹھا کر اصل جگہ کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجراسود   نصب فرما دیا۔



عبداللہ ابن زبیر کی تعمیر 


جب حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالی عنہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ تو اس نے آپ کو قید کرنے کے لئے اپنے لشکر بھیجے ۔


حضرت عبداللہ ابن زبیر نے اپنے ساتھیوں سمیت خانہ کعبہ میں پناہ گزیں ہو گے۔


کعبہ کے اردگرد خیموں کی کثرت تھی۔ ایک خیمے میں آگ لگی تو دوسرے خیموں تک پھیل گئی۔ اس دن ہوا بھی تیز چل رہی تھی ہوا کے ساتھ آگ کے شولے اڑے تو غلاف کعبہ کو آگ لگ گئی۔ آگ ایسی بڑی کے غلاف کے ساتھ لکڑی بھی جو کہ پتھروں کے درمیان تھیں سب جل گی۔ 


اس طرح بیت اللہ کی دیواریں کمزور ہوگی۔ تو اوپر سے پتھر گرنے لگے۔ یہ دیکھ کر یزیدی لشکر والے بھی گھبرا گئے۔ مکہ کے لوگوں نے یزیدی لشکر سے کہا جس نوجوان ابن معاویہ کی بیت حضرت عبداللہ بن زبیر نے نہیں کی وہ فوت ہوچکا ہے۔ (اس کی وفات کعبہ کو آگ لگنے کے 27 دن بعد ہوئی) تو اب تم ہم سے لڑائی کے لئے مصر کیوں ہو۔ تم واپس شام چلے جاؤ۔


جب شامی لشکرواپس چلا گیا توحضرت عبداللہ ابن زبیر نے مکہ والوں سے بیتاللہ کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنے کا مشورہ کیا۔ اکثر لوگوں نے اس سے  انکار کیا۔ سب سے زیادہ مخالفت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نےکی۔ انہوں نے فرمایا


 کعبہ کو اسی حالت پر رہنے دو جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر گئے۔ نہ مجھے خطرہ ہے تمہارے بعد آنے والے حکمران اسے گراتے بناتے رہیں گے تھے اس کا احترام ختم ہو جائے گا۔


 پھر کچھ دن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ انتظار اور مشورہ فرماتے رہے۔ آخر کار انہوں نے کعبہ کی عمارت کو گرانے کا فیصلہ کر لیا ۔ وہ چاہتے تھے۔ کہ بیت اللہ کو اصل ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے۔ 


جیسا کے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے


 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا عائشہ تجھے علم نہیں کہ جب تیری قوم قریش نے کعبہ بنایا تھا تو وہ بیت اللہ کو مکمل ابراہیمی بنیادوں پر نہیں بنا سکے تھے بلکہ انہوں نے کچھ حصہ کم کردیا تھا۔


میں نے کہا اے اللہ کے رسول تو پھر آپ اسے دوبارہ ابراہیمی بنیادوں کے

مطابق کیوں نہیں بنا دیتے


 آپ نے فرمایا تیری قوم قریش یہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں گران کے مرتد ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ایسا کر گزرتا۔



سیدنا ابن عمر فرمایا کرتے تھے: میرے خیال میں


 رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے حطیم والی جانب کے دونوں کونوں کو، (طواف کے دوران) اسی لیے ہاتھ نہیں لگایا تھا کہ وہ صحیح ابراہیمی بنیاد 

پرنہیں


ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا 


اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قریش ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو میں کعبہ کو گرا کر دوبارہ بناتا اور اس میں دو دروازے لگا دیتا. ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے


چنانچہ ابن زبیر نےیہ کام کر دیا. انھوں نے کعبہ کی جلی ہوئی عمارت کو گرا

 کر اسے اصل ابراہیمی بنیادوں کے مطابق بنا دیا. ابن زبیر نے حطیم کو بیت اللہ میں داخل کر دیا اور دو دروازے لگا دیے ایک مشرقی جانب اور دوسرا مغربی جانب


جب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور حجاج مکہ مکرمہ میں داخل ہوا. اس نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کو ابن زبیر کی تعمیر کعبہ کا سارا واقعہ لکھ بھیجا



عبدالملک نے جواب میں لکھا


 مغربی دروازہ جسے ابن زبیر نے بنایا ہے۔ بند کر دو اور جو بیت اللہ کی عمارت میں حجر کی جانب اضافہ کیا ہے وہ بھی گرا دو. حجاج نے چھ ہاتھ اور ایک بالشت (تقریباً دس فٹ) عمارت گرا دی اور پہلی طرح کا غلاف چڑھا دیا. باقی میں کوئی تبدیلی نہیں کی.


 بعد میں عبدالملک کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پہنچی تو اسے اپنے حکم پر بہت افسوس ہوا۔ لیکن اس نے بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا اور اس میں کوئی اضافہ نہ کیا۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]