سردار محمد یوسف صاحب گجر قوم کے محسن مانے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے ماضی میں دیگر اقلیت قوم والوں کا رعب دبدبہ ہوا کرتا تھا گجر قوم اکثریت کے باوجود بھی جاگیرداروں کے تسلط میں رہتے ہوۓ غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔
پھر سردار محمد یوسف نے سیاست میں قدم رکھا اور گجر قوم کو عروج بخشا۔
ایسی بہت ساری باتیں آپ کو سننے کو ملیں گے۔ کئ لوگ ان واقعات کو ایسے بیان کریں گے کہ لوگ ہلاکو اور چنگیز خان کو بھول جائینگے۔ مگر جب ان سے کوئ ثبوت مانگا جاۓ تو بےبس دکھائ دیتے ہیں۔ ان کے پاس واحد جواب ہوتا ہے اپنے بزرگوں سے پوچھیں۔ جبکہ عقل و شعور والوں کے لیے یہ جواب کامل نہیں ہوتا۔
سردار محمد یوسف صاحب لگ بھگ تین دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور انکے بچے لندن سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ سردار یوسف کے حلقے کے عوام تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں۔
سردار یوسف کے حلقے میں تعلیم صحت پانی راستوں کے بحران کو دیکھا جاۓ تو ان کا حلقہ اس قدر پسماندہ ہے آج سے پچاس سال پیچھے نظر آتا ہے۔
سردار محمد یوسف صاحب گزشتہ ن لیگی دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں مگر حلقے کے عوام کی محرمیوں پر کام کرنے کی توفیق ان کو کبھی نصیب نہیں ہوئ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن 2018میں عوام نے قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار سردار شاہجہان یوسف جو سردار یوسف کے صاحبزادے ہیں کو یکسر مسترد کر کے صالح محمدخان کو کامیاب بنایا۔ سردار گروپ کی تنزلی اور ناکامی کا سبب حلقے کے عوام کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔ جس کی اب انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ان لوگوں نے ہمیشہ قوم پرستی کا نعرہ لگا کر ایک مخصوص قوم سے ووٹ حاصل کیئے اور اقتدار کے مزے لوٹے مگر اب کی بار عوام کافی حد تک باشعور ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے سردار گروپ کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
کچھ دنوں تک پی کے30پر ضمنی الیکشن ہونے جا رہا ہے جہاں پر سردار گروپ کے مدمقابل امیدوار احمدحسین شاہ کی بڑھتی مقبولیت کو دیکھ کر سردار یوسف گروپ نے ایک بار پھر کیوائ کے سیدقاسم شاہ کے پاؤں پکڑ کر مدد طلب کر لی ہے۔ کل تک جو سردار گروپ قوم پرستی پر سیاست کرتے ہوۓ یکطرفہ مقابلہ جیتا کرتے تھے، عوامی نفرت کی وجہ سے آج وہ لوگ اپنے سابقہ مخالفین کے پاؤں میں پڑے مدد مانگتے نظر آتے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے جس غریب عوام کو بےوقوف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹے جاتے تھے اور عوامی مسائل کو نظرانداز کر دیا جاتا تھا آج اسی عوام کے سامنے بےبسی و رسوائ کے تصویر بن کر رہ گے ہیں۔
مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں