محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

مروجہ 

جہیز وتلک، بارات اور دیگر 

غیر اسلامی رسومات کے خلاف محقق ومدلل فتوی


کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں

 

آج کل شادی بیاہ سے قبل اور بعد میں بعض چیزوں کو اپنے اوپر اس طرح سے لازم کرلیا گیا ہے کہ اگر ان کو نہ کیا جائے تو شادی نامکمل سمجھا جاتا ہے یا پھر محلے والے طعنہ دیتے ہیں مثلاً


1) سہرا باندھنا، منہ دکھائ کی رسم کہ لڑکے کے ساتھ اس کے کچھ دوست بھی لڑکی کو دیکھنے آتے ہیں،یا پھر لڑکے اور لڑکی کو تنہائی کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ  اس ملاقات کے ذریعے وہ اپنی پسند اور ناپسند کا اظہار کرسکیں، رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے لڑکی فون پہ گفتگو کرتے ہیں 


2)لڑکی والوں کی طرف سے بڑی دعوت کرنا اور پھر ھدیہ یا معاوضہ کے نام پر دعوت میں آنے والوں کا بند لفافے لڑکی کے والد کو دینا کیسا ہے 

بعض علاقوں میں خواہ لڑکی والوں کی طرف سے دعوت ہو یا لڑکے والوں کی طرف سے ولیمہ کی دعوت ہو بہرصورت دعوت کے بعد لوگ بند لفافے دیتے ہیں یا پھر ایک آدمی کاپی میں رقم نوٹ کرتا ہے اور پھر اتنی ہی رقم دینے والوں کی اولاد کے نکاح کی دعوت یا ولیمہ کی دعوت میں دینا ضروری سمجھا جاتا ہے اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ 


3)شادی کیسی لڑکی سے کرنی چاہئے اور شادی کی عمر کیا ہے 


4)اسلام میں مروجہ جہیز وتلک کا کیا حکم ہے؟ 

جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے بھاری رقم گاڑی کار اور جوڑے کا مطالبہ کرنا 

یا بدنامی سے بچنے کیلئے مطالبہ تو نہیں کیا مگر نہ دینے پر لڑکی اور لڑکی والوں کو طعنہ دینا، لڑکی پر ظلم کرنا از روئے شرع کیا حکم ہے 


5)اسلام میں مروجہ بارات کا کیا حکم ہے کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی بارات میں شرکت کی تھی؟ کیا خیرالقرون میں اسکی کوئی مثال ملتی ہے؟ 


بالا سوالات کا تشفی بخش جواب ارقام فرماکر اجرعظیم کے مستحق ہوں آمین 


*المستفتی :*

*(مولانا) محمد اسامہ مفتاحی بنگلور*


الجواب وباسم ملھم الصواب


1)سہرا پڑھنا یا سہرا باندھنا یہ ہندوانہ رسم ہے اچھے خاصے دین دار لوگ سہرا باندھنے کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ شعراء کو بلاکر خاندان والوں کے ہر فرد کے نام پر شعر پڑھا جاتا ہے جسے سہرا پڑھنا کہتے ہیں یہ دونوں چیزیں خلاف شریعت ہیں جوکہ واجب الترک ہے 


(مستفاد از فتاوی محمودیہ ج12) 


منہ دکھائ کی رسم بھی خلاف شرع ہے البتہ مسنون یہ ہے کہ نکاح سے قبل ایک مرتبہ لڑکی کا چہرہ اور ہتھیلی دیکھ لے 

جس کا طریقہ یہ ہے کہ لڑکا اور اسکا سرپرست ساتھ چلاجائے اس میں دوست احباب کو لے جانے کا اہتمام درست نہیں 


اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے گھر کی خواتیں کے ذریعے سے اس کام کو انجام دیا جائے کہ وہ لڑکی کے ساتھ کچھ وقت رہ کر تمام چیزوں کا  اندازہ لگاسکتی ہے 


رشتہ طے ہونے کے بعد نکاح سے قبل لڑکے لڑکی کامیاں بیوی کی طرح ملنا یا فون پر گفتگو یا خط وکتابت خواہ واٹس آپ یا ایس ایم ایس کے ذریعے سے ہو حرام ہے 


(مستفاد ازفتاوی رحیمیہ جلد 5)


2)شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں نقدی وغیرہ کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا قرض ہوجاتا ہے


  جسکو ادا کرنا ضروری ہی ہے اور ادا نہ کرنے کی صورت میں وصیت بھی ضروری ہے، کیونکہ آجکل مروج ہی یھی ہیکہ دیتے ہی اسلئے ہیکہ میری اولاد *لڑکا/لڑکی* کی شادی میں یہ ضرور دیگا جس کا ادا کرنا ضروری سمجھاجاتا ہے اور اس میں ریاونمود کا بھی شائبہ ہے لہٰذا یہ عمل بھی واجب الترک ہے 


3)نکاح کے لئے ایسی لڑکی یا لڑکےکا انتخاب کیا جائے جو دیندار ہو 

ایک حدیث میں ہے کہ عیب دار کالی کلوٹی دیندار لڑکی غیر دیندار مالدار خوبصورت لڑکی سے لاکھ درجے اچھی ہے 

(جمع الفوائد جلد1ص112)


اور حسب ونسب میں کفو بھی دیکھ لیں 


بالغ ہونے کے بعد اسلام نے جلد نکاح کی تاکید کی ہے کہ کہیں انسان غلط راستے پر نہ پڑجائے 


بقیہ بلوغ کے معاً بعد نکاح کرنے میں اگر مضرصحت ہوتو والدین کو چاہئے کہ اولاد کی خوب نگرانی کرے اور کچھ وقت بعد نکاح کردیں

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ساڑھے پندرہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکیس برس کی عمر میں 

(اصلاح الرسوم) 


بہشتی زیور میں ہے کہ لڑکا جب کمانے اور لڑکی گھر چلانے کے لائق ہوجائیں تو شادی کردینی چاہئے 


4)اسلام میں مروجہ جہیز وتلک کی اصلا کوئی بنیاد نہیں ہےیہ بھی غیر مسلموں کی رسم ہے جوکہ آج مسلمانوں کے لئے ایک ناسور بن چکا ہے 


لڑکی کو اس کے والدین جہیز کے نام سے کچھ ضروری سامان دیتے ہیں اتنی تو گنجائش ہے 

لیکن لڑکی والوں سے مطالبہ کرنا جوڑے وغیرہ کی رقم مانگنا گاڑی کارمانگنا  ناجائز ہے 


یا زبان سے مطالبہ تو نہیں کیا مگراشارہ وکنایہ سے جہیز کی خواہش کرنا یا نہ دینے پر طعنے کسنالڑکی پرظلم کرنا بہرصورت المعروف کالمشروط کے تحت ناجائز وحرام ہے 


اس سلسلے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی اور جہیز کا حوالہ پیش کرکے جواز کی راہ نکالنا غلط فہمی یا کم فہمی ہے 

رسول اللہ صلعم عدل و انصاف کے خوگر تھے اور یہ محقق ہے کہ آپ نے اپنی دیگر بیٹیوں کو شادی کے موقع پر کچھ بھی نہیں دیا تھا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا تھا تو اگر یہ جہیز کے طور پر تھا تب تو دیگر بیٹیوں کے ساتھ یہ ناانصافی کہلائے گی جو کہ آپ کے شان کے خلاف ہے 

حالانکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جوکچھ بھی دیا تھا وہ دراصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیا گیا تھا اور اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرپرستی میں تھے

(معارف الحدیث جلد7)


 **جہیز کی شرعی حیثیت* *سمجھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:*


(الف) اگر ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے ایسی چیزوں کا تحفہ پیش کرے، جو اُس کے لیے آیندہ زندگی میں کار آمد ہوں،خواہ وہ سامان کی شکل میں ہو یا ملبوسات وزیورات کی شکل میں ہو،تو شرعا اس میں مضائقہ نہیں؛ بلکہ صلہ رحمی کے طور پر نام و نمود سے بچتے ہوئے بغیر کسی جبر و دباوٴ کے اپنی حیثیت کے مطابق دینا مستحسن ہے، خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سادگی کے ساتھ کچھ جہیز عطا فرمایا ہے۔شرعی اعتبار سے اس قسم کے جہیز کے لیے کوئی مقدار بھی مقرر نہیں ہے، اگر دوسرے مفاسد نہ ہوں، تو باپ اپنے دلی تقاضے کے تحت جو کچھ دینا چاہے، دے سکتا ہے۔اسی طرح اگر لڑکی کے والد معاشرتی دباوٴ کے بغیر اپنی حیثیت کے مطابق لڑکے کو کچھ دینا چاہیں، تو شرعا اس کی بھی گنجائش ہے۔


(ب) لڑکی کے والد کے لیے لڑکی کو جہیز دینا ضروری نہیں ہے،اسی طرح لڑکی کے شوہر کے لیے ضروریات کا انتظام کرنا ضروری نہیں ہے۔جہیز نکاح کی ہر گزکوئی لازمی شرط نہیں ہے۔


 (ج) لڑکے اور اُس کے گھروالوں کو شرعا اور اخلاقاً کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ لڑکی اور اس کے گھروالوں سے جہیز کا مطالبہ کریں یا اس کی توقعات باندھیں۔ لڑکے والوں کی طرف سے صراحةً یا دلالةً لڑکی والوں کو زبردستی جہیز دینے پر مجبور کرنا قطعاً جائز نہیں ہے؛ بلکہ یہ کھلا ہوا جبر وظلم ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص محض مال کے لیے کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید تنگدست بنادے گا ”ومن تزوج لمالہا لم یزدہ اللہ إلا فقرًا (أخرجہ الطبراني في الأوسط، رقم ۲۳۴۲)


 (د) نام و نمود اور دکھاوے کے خاطر لڑکی کو جہیز دینا جائزنہیں ہے۔


(ح) معاشرے کے دباوٴ کی وجہ سے اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینا معاشرے میں پھیلی ہوئی ایک بری رسم کا تعاون کرنا ہے، اس لیے یہ صورت بھی جائز نہیں ہے۔(مستفاد از اسلامی شادی ص: ۱۵۱، بحوالہ اصلاح الرسوم)ان اجزاء سے صورت مسئولہ کا حکم واضح ہوگیا کہ نام و نمود سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق بچی کو شادی کے موقع پر ضرورت کا سامان دینا جائز ہے لیکن لڑکے والوں کو جہیز کا مطالبہ کرنا یا نام و نمود کی خاطر یا اپنی حیثیت سے زیادہ محض معاشرتی دباوٴ کی وجہ سے جہیز دینا شرعا جائز نہیں ہے 


دارالافتاء دارالعلوم دیوبند


 5)اسلام میں مروجہ بارات کی کوئی اصل نہیں ہے نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی بارات میں شرکت فرمائ ہے اور نہ ہی خیرالقرون میں اسکی کوئی مثال ملتی ہے 


جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوگئی تو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر چھوڑ آئ 


لہذا اس رسم کی بھی کوئی حقیقت نہیں ضرورتاً بلاکسی اہتمام کےدوچار ذمہ دار لوگ لڑکے کے ساتھ چلےجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں 


واللہ اعلم بالصواب 


*کتبہ*

 *العبد محمد زکریا القاسمی*

*دارالافتاء مجلس تحقیق بنگلور*


*الجواب صحيح*

*العبد محمد قاسمی*

*دارالافتاء جامعہ قاسم العلوم کٹیہاربہار*


*الجواب صحيح*

*محمد سھیل قاسمی*

*خادم مدرسہ فیض القرآن گودھرا، گجرات*

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]