محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

کچھ تاریخ پر نظر تمھیں یاد ہو کے نہ یاد ہو مگر مجھ تک یہ خبر پہنچ چکی ہے سوچ رہا تھا کے آخر ہمارے علما کیوں نشانے پر ہیں ؟تو مولانا کی یہ حقیقت کسی نے بھیجی جسکا مجھے کچھ علم نہیں تھا کچھ اپنے الفاظ اور کچھ معلومات تحریر کرکے آپ احباب سے شئیر کردی 

 "1990" میں "نوازشریف" پہلی مرتبہ "وزیراعظم" بنا اور اس کیلئے وہ" اسلامی جمہوری اتحاد "کی بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آیا؛ویسے تو" آئی جے آئی "میں 9 جماعتیں شامل تھیں اور ان میں اکثریت "مذہبی جماعتوں "پر مشتمل تھی لیکن ان میں قابل ذکر "جماعت اسلامی"،" جمیعت العلمائے اسلام (س) "اور مرکزی جمیعت اہلحدیث ہی تھیں؛"جے یو آئی (س)" کی قیادت دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لیڈر مولانا سمیع الحق

 صاحب  کے پاس تھی؛ جو اپنی مذہبی سوچ کے حوالے سے بہت کٹر مشہور ہیں ؛ یہ وہی مولانا سمیع الحق ہیں جن کے مدارس سے 1995 میں افغان طالبان تعلیم حاصل کرکے نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ مولانا سمیع الحق کو طالبان کا روحانی باپ اور استاد کہا جاتا ہے اور افغانی طالبان کیلئے آج بھی ان کے الفاظ حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔1990 میں جب نوازشریف نے حکومت

 بنالی تو" مولانا سمیع الحق "نے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ "آئی جے آئی "کے منشور کے مطابق شریعت بل لایا جائے؛ نوازشریف نے کسی نہ کسی طرح اقتدار کے پہلے"

 چھ ماہ "تو گزار لئے؛ لیکن پھر 1991 میں اس پر دباؤ بڑھنے لگا۔ دوسری طرف بینظیر نے بھی سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کررکھا تھا اور نوازشریف اس وقت سخت تناؤ کی کیفیت میں آچکا تھا۔نوازشریف نے فوری طور پر چند مولویوں کا بورڈ بنا کر انہیں شریعت بل کا مسودہ بنانے کا ٹاسک دیا اور سمیع الحق سے چند ہفتے مزید حاصل کرلئے۔مسودہ تیار ہوگیا اور اس کا سارا زور حاکم وقت یعنی وزیراعظم کو ‘ امیرالمومنین ‘ ثابت کرنے پر تھا۔نوازشریف کی طرف سے جب یہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو سینیٹر مولانا سمیع الحق نے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور اسے شریعت کے ساتھ مذاق کے مترادف قرار دے دیا۔اسی اثنا میں قومی اسمبلی سے ایک قرارداد کے زریعے نوازشریف نے یہ مسودہ منظور کروا کر سینیٹ میں بھجوا دیا۔ 

مولانا سمیع الحق کیلئے صورتحال ناقابل برداشت ہوچکی تھی، چنانچہ انہوں نے ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی جو خلاف توقع کامیاب رہی۔ اس ہڑتال کی کامیابی کے بعد ایک طرف نوازشریف پر دباؤ بہت بڑھ گیا اور دوسری طرف مولانا سمیع الحق کا حوصلہ بھی بلند ہوگیا کہ وہ نوازشریف کو مزید دباؤ میں لاسکیں۔ایک دن سینیٹ میں مولانا سمیع الحق نے شریعت بل پر دھواں دھار تقریر کی اور نوازشریف کی حکومت گرانے کی دھمکی دیتے ہوئے" آئی جے آئی" سے نکلنے کا اعلان کردیا۔

اگلے دن ملک کے ایک بڑے قومی اخبار کے فرنٹ پیج پر ایک خبر چھپ گئی جس میں اسلام آباد کی رہائشی ” میڈم طاہرہ ” کا انٹرویو چھپا تھا جو اسلام آباد میں ایک قحبہ خانہ یا عیاشی کا اڈا چلاتی تھی۔ طاہرہ ، 35 سالہ عورت جو اسلام آباد کی معروف طوائف تھی، شراب اور اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوئی، میڈم طاہرہ نے اپنے انٹرویو میں دھانسو قسم کے انکشافات کرڈالے۔ اس انٹرویو میں میڈم طاہرہ نے ایک طرف بہت سے سیاستدانوں کا نام لئے بغیر انہیں اپنے ” مستقل گاہک ” قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ مولانا سمیع الحق اس کے مستقل گاہکوں میں سے ایک ہیں اور ‘ مردانہ قوت ‘ سے مالا مال ہیں۔میڈم طاہرہ نے یہ بھی بتایا کہ مولانا سمیع الحق 

جنسی عمل کے دوران ایک ” خاص ” پوزیشن پسند کرتے ہیں جس کیلئے اس اخبار نے ” سینڈوچ ” کی اصطلاح استعمال کی اور بعد میں مولانا کیلئے ‘ سیمی سینڈوچ ‘ کا لقب بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔اس انٹرویو نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔ مولانا سمیع الحق پر چاروں طرف سے یلغار ہونا شروع ہوگئی اور انہیں سینیٹ میں آکر روتے ہوئے حلف اٹھا کر اپنی بے گناہی کا یقین دلانا پڑا لیکن چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں اور  مولانا  کی عیاشی کی خبر چھپ گئی۔کچھ عرصے بعد مولانا نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا اور  دیو بندی  مدارس کی مینجمنٹ  اور  طالبان  پر فوکس شروع کردیا اور یوں نوازشریف پر شریعت بل لانے کا دباؤ ختم ہوگیا۔وہ میڈم طاہرہ کون تھی، کہاں سے آئی، کہاں گئی، کسی کو پتہ نہ چل سکا۔ اس کے اتنے بڑے انکشاف کے بعد اس کے عیاشی کے اڈے کے خلاف کیا کاروائی ہوئی، اس کا بھی کچھ علم نہیں۔

آپ جاننا تو چاہیں گے کہ میڈم طاہرہ کا انٹرویو کس اخبار میں چھپا تھا؟ یہ عظیم سعادت میرشکیل الرحمان کے اخبار ‘ دی نیوز ‘ کو میسر آئی اور جس ٹیم نے اس انٹرویو کا انتظام کیا، اس کی قیادت سنئیر آنیکر پرسن کامران خان کررہا تھا۔ داستان تاریخ کے پنوں سے کھل کر سامنے آگئی اس حمام میں سب ننگے ہیں  ؛

اور اندازہ ہوگیا کے ہمارے علما پر جو بھی اس قسم کے الزامات لگتے ہیں یہ لگاے جاتے ہیں لگاے 


"میر ریاض خان "



پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔


مزید تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]