محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

موسم سرما کے مشغلے


یہ اس زمانے کی بات ہے جب ’’وہ موسم سرما‘‘ والا بچہ وادی نیلم کے ایک دور افتادہ گاؤں میں رہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ:


برفانی موسم سرما کے اپنے تقاضے اور مشغلے ہوا کرتے تھے۔ نومبر کے آخر میں پہلی پہلی برف کے بعد شکاری ٹولیاں بنا کر شکار کے لئے نکل جاتے تھے اور مار خور، مشکی ہرن، جنگلی بکرے اور طرح طرح کے پرندے مار کر لاتے تھے۔ ہرن اور مارخور کا گوشت بطور سوغات تقسیم ہوتا تھا۔


شکاری سردی سے بچنے کا خاص انتظام کرتے تھے اور کوٹ ووٹ جو کچھ ہوتا تھا پہن لیتے تھے مگران کے کپڑے اونی ہوتے تھے کیونکہ خشک برف ان میں جذب نہیں ہوتی۔ پاؤں پر بڑے بڑے اونی چیتھڑے لپیٹ کر ان کے اوپر ایک خاص درخت کی چھال یا ایک خاص لمبی گھاس سے بنے چپل پہن لیتے تھے۔ ٹانگوں کی سردی سے حفاظت کے لئے ’’پیتو‘‘ پہنا کرتے تھے۔ پیتو چھ یا آٹھے انچ عرض کا اونی کپڑا ہوتا تھا جسے ٹخنوں سے گھٹنوں تک پٹی کی طرح لپیٹا جاتا تھا۔ شکار کا یہ سفر ایک دن سے لے کر دس بارہ دن پر بھی محیط ہو سکتا تھا۔ شاید ۱۹۸۹ میں اس گاؤں میں ایسی ہی شکاری مہم کے دوران برف کوچ کی وجہ سے ایک جانکاہ حادثہ بھی پیش آیا۔ مجھے اس بچے نے بتایا ہے کہ اگر موقع ملا تو وہ کہانی بھی سنائے گا۔


گھر کی خواتین پورے سال کی طرح سردیوں میں بھی مصروف رہتیں۔ صبح سویرے مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا، دودھ دوہنا اور پھر دھوپ ہو تو جانوروں کو باڑے سے باہر نکالنا اور دھوپ نہ ہو تو باڑے کے اندر ان کو چارہ ڈالنا ان کا اہم کام ہوتا تھا۔ اگر دھوپ میں جانوروں کو باہر نکالنا ہو تو مرد پہلے ان کے لئے برف ہموار کرتے اور پھر چارہ ڈال دیا جاتا۔ اکثر اوقات برف اتنی ہوتی تھی کہ جانور اس دبی ہوئی جگہ سے دائیں بائیں بھاگ نہ سکتے تھے البتہ کسی بچے کو وہاں پاس کھڑا کر دیا جاتا کہ جانور آپس میں نہ لڑیں۔


اچھا انسانوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ انسانوں کی طرح مختلف جانوروں کی عادات اور نخرے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس نخرے بازی میں بکری کا نمبر پہلا ہے۔ بکری ساری رات کھڑی رہے گی مگر گیلی جگہ پر نہ سوئے گی۔ اسی طرح پاؤں کے نیچے روندا ہوا چارہ نہ کھائے گی جبکہ بھیڑ اس کے مقابلے میں ’’صابر شاکر‘‘ جانور ہے جو دے دو کھا لے گی، جہاں رکھ دو سو جائے گی۔ یہی فرق گھوڑے اور گدھے میں بھی ہے اور گائے بھی بھیڑ کے قبیل سے ہے۔ اوہو۔۔۔ یہ بچہ بڑا خراب ہے کہانی کہاں لے گیا۔ 


اس زمانے میں خواتیں کے دوسرا اور اہم مشغلہ اون کاتنا، جرابیں اور بنیان بننا ہوتا تھا۔ اس کے لئے وہ تیار شدہ دھاگوں کو خود ہی رنگا کرتی تھیں۔ بعد میں بازار میں پشمینہ آ گیا تو ان کی مشکل آسان ہو گئی۔ اسی طرح اون کاتنے کے لئے جمعرات جمعرات کو مختلف گھروں میں خواتین کی خاص مجلسیں جمتیں جن میں کہانیاں سنائی جاتیں، آٹے کا حلوہ کھایا جاتا، اخروٹ ملتے اور اگلے دن حساب ہوتا کہ کل رات فلاں نے اتنی اور فلاں نے اتنی اون کاتی۔


مرد حضرات گھر کے باہر مویشیوں کی خدمت میں کچھ ہاتھ بٹاتے، گھاس کے ذخیرے سے چارہ نکال کر لاتے اور اگر گھاس کہیں دور ہوتی تو وہاں سے گھاس لاتے۔ واپسی پر برآمدے میں ان کے پیر پٹخ پٹخ کر پاؤں سے برف جھاڑنے کی آواز سن کر بچے باہر نکلتے (کیونکہ وہاں مکان لکڑی کے ہوتے ہیں اور پاؤں پٹخنے سے ایک بھونچال محسوس ہوتا ہے)۔ ان کے ہاتھ میں کوئی چیز ہوتی تو وہ لے لیتے۔ ان کے لئے چولہے میں آگ مزید دہکائی جاتی اور ممکن ہو تو گرم گرم دودھ یا چائے پیش کی جاتی۔


اسی طرح جو لوگ کھڈی پر پٹی بن سکتے ہوتے وہ دن کو یہ کام بھی کرتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس گاؤں میں اس کام کو ایک ہنر سمجھا جاتا تھا اس لئے اس کی وجہ سے جولاہا کہہ کر تحقیر آج تک نہیں سنی گئی اور بہت سے لوگ سردیوں میں یہی کام کر کے سارے سال کا خرچہ نکال لیتے ہیں۔


اب بچوں کے بارے میں بھی سنئے۔ ان کو بھی سویرے سویرے زبردستی بستر بدر کیا جاتا۔ منہ دھونے کے لئے گرم پانی فراہم کیا جاتا اور اس کے بعد چائے یا دودھ پلا کر مدرسے بھیج دیا جاتا۔ مدرسے کے ماحول کا اپنا ہی لطف ہوتا تھا۔ یہ کہانی پھر سہی۔ واپسی پر وہ اپنے کپڑے اور پاؤں برف میں گیلے کر کے آتے تو ڈاںت کے تحفے کے ساتھ کپڑے سکھانے کے لئے آگ کے پاس کھڑا کر دیا جاتا۔ جب ان کی حالت اچھی ہو جاتی تو بھیڑ بکریوں کا خیال رکھنے کے لئے بھیج دیا جاتا۔


سکول اور مدرسہ جاتے ہوئے ہر بچے کو ایک ایک لکڑی ساتھ لے جانا پڑتی تھی۔ اس لکڑی کے سہارے رستہ بھر وہ برف پر پھسلتے جاتے اور سکول اور مدرسے میں وہ انگیٹھی کا ایندھن بن جاتی۔ چونکہ اس لکڑی کی کوئی مقدار مقرر نہ ہوتی تھی اس لئے جو بچہ گھر سے لکڑی نہ لاتا وہ کسی کی لکڑی توڑ کر آدھی خود لے لیتا۔ اس طرح دونوں بچ جاتے ورنہ لکڑی نہ لانے پر سکول میں پوچھ بھی ہوتی تھی۔ 


سکول سے واپسی پر دھوپ ہوتی تو کپڑے زیادہ بھیگتے تھے کیونکہ رستے کی برف پگھل جاتی تھی۔ اس لئے گھر پہنچتے تو پاؤں پر جھریاں پڑ چکی ہوتیں جو رات کو سو کراٹھنے کے بعد ہی ٹھیک ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ آپس میں لڑنا، ایک دوسرے کی شکایتیں کرنا، کہیں سے جا کر کوئی چیز لانا، کسی کو جا کر کوئی چیز دینا اور جمعرات جمعرات کو کسی چچا، ماموں یا کسی اور عزیز کے ہاں مہمان بننا اور مختلف مواقع پر مختلف حیلے بہانوں سے گھر کے مختلف افراد سے ڈانٹ ڈپٹ اور تھوڑی بہت مار کھانا بھی بچوں کے مشاغل میں شامل ہوتا تھا۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]