محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

مولانا سمیع الحق شہید کی خان صاحب سے کچھ دن پہلے کی آخری ملاقات😢


مولانا سمیع الحق پاکستان کے چند بااصول ترین مذہبی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ مولانا سمیع الحق 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھے جب نوازشریف اقتدار میں آیا۔ لیکن فضل الرحمان کے برعکس مولانا سمیع الحق نے بجائے وزارتیں مانگنے کے نوازشریف سے شریعت بل کے نفاذ کا مطالبہ کردیا اور انکار کی صورت میں اتحاد سے الگ ہو کر تحریک چلانے کی دھمکی دے دی۔


نوازشریف نے مولانا کو قابو کرنے کیلئے میڈم طاہر کے ذریعے مولانا کی کردار کشی کا سکینڈل بنوایا لیکن اللہ تعالی نے مولانا کو عزت دے رکھی تھی، اس لئے نہ صرف وہ سکینڈل اپنی موت آپ مرگیا بلکہ 1995 میں جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو مولانا کو ان کے استاد کی حیثیت سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ 90 کی دہائی میں مولانا کا شمار طاقتور ترین عالمی مذہبی رہنماؤں میں ہونے لگ گیا۔


ایک دفعہ نوازشریف سے علیحدہ ہوئے اور پھر ساری عمر دوبارہ اس کی گلیوں کا رخ نہ کیا۔ شہید مولانا نے اپنے آخری دس سال میں جس سیاستدان کو سب سے قریب اور سب سے عزیز رکھا، وہ کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان تھا۔


تحریک انصاف کی خیبرپختون خواہ حکومت نے مولانا کو وہ احترام دیا جو کبھی دیوبند علما کے دھڑے بھی نہ دے سکے۔ حتی کہ مولانا سمیع الحق کو اس سال فروری میں تحریک انصاف نے سینیٹر کیلئے نامزد بھی کیا لیکن اس وقت جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے ن لیگ، اے این پی اور پی پی کی قدم بوسی کرکے مولانا صاحب کو سینیٹر نہ بننے دیا ۔


عمران خان کے سچے مسلمان ہونے کے حق میں سب سے بڑی گواہی شہید مولانا سمیع الحق نے اپنی زندگی میں ہی دے دی تھی، عمران خان نے جس مذہبی شخصیت کا دل سے احترام کیا، وہ شہید مولانا سمیع الحق ہی تھے۔


مرحوم نے ڈیزل فضلو کی منافقت بےنقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔


اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان پر کروٹ کروٹ رحمت نازل فرمائے۔ آمین!!!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]