قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ مِنْہَاۤ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الْقَیِّمُ ۬ۙ فَلَا تَظْلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمْ
(ترجمہ)بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ (التوبہ:۳۶)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قمری سال کے مہینوں کی تعداد کا ذکر فرمایا ہےپتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔ (بخاری: کتاب التفسیر، سورة التوبہ :4662)
اسلام سے قبل بھی سال میں چار مہینے حرمت والے تھے اور اہل عرب ان کی حرمت کے قائل بھی تھے لیکن اپنی گمراہی و سرکشی کی بناء پر وہ ان مہینوں میں تبدیلی کر دیتے تھے۔جب وہ کسی مخالف کے ساتھ جنگ کرنے پر تلے ہوتے تو حرمت والے مہینے کو یہ کہ کر ٹال دیتے کہ ہم اگلہ مہینہ حرمت والا منا لیں گےیا ایک مہینے کو اتنا طول دیتے کہ وہ دو مہینوں کے برابر ہوجاتا۔عرب کے اس دستور کو قرآن پاک میں نَسِیۡ کا نام دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِـُٔوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمْ سُوۡٓءُ اَعْمٰلِہِمْ ؕ وَاللہُ لَایَہۡدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۷﴾٪ (ترجمہ) ان کا مہینے پیچھے ہٹانا نہیں مگر اور کفر میں بڑھنا اس سے کافر بہکائے جاتے ہیں ایک برس اسے حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں کہ اس گنتی کے برابر ہوجائیں جو اللہ نے حرام فرمائی اور اللہ کے حرام کئے ہوئے حلال کرلیں ان کے بُرے کام ان کی آنکھوں میں بھلے لگتے ہیں اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔حضورسید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اعلان فرمایا :کہ نَسِیۡ کے مہینے گئے گزرے ہوئے اب مہینوں کے اوقات کی وضع الہٰی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نَسِیۡ کو ممنوع قرار دیا گیا اور کفر پر کفر کی زیادتی بتایا گیا کیونکہ اس میں ماہ ہائے حرام میں تحریم قتال کو حلال جاننا اور خدا کے حرام کئے ہوئے کو حلال کر لینا پایا جاتا ہے ۔
ماہِ محرم بھی ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کے تو نام کا مطلب ہی حرمت و عظمت والاہے ۔ اس ماہ کو اسلام میں بڑی عظمت و فضیلت حاصل ہیں ۔ ان فضیلتوں میں سے ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں عاشوراء کا دن بھی ہے جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ :مجھے اللہ پر اُمید ہے کہ عاشوراء کاروزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹادےگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام ، حدیث1162)
محرم کے مہینوں میں روزے رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے چنانچہ ایک حدیث میں محرم کی فضیلت کچھ یوں آئی ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ماہ رمضان کے بعد افضل روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔(صحیح مسلم،کتاب الصیام، حدیث1163 ) ایک اور روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک آدمی نے عرض کیا: اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ (آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی: کتاب الصوم، باب ماجاء فی صوم المحرم ؛ ۷۴۱)
ماہ محرم کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس سے ہماراا سلامی سال شروع ہوتا ہے ۔ اسلامی سال کی بنیاد تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےواقعہ ہجرت پر ہےلیکن اس اسلامی سن کاتقرر اورآغازاستعمال۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےدورسےہوا ۔ بیان کیاجاتاہےکہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کےگورنر تھے،ان کےپاس حضرت عمر فاروق کےپیغامات آتےتھےجن پرتاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔۱۷ھ میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےتوجہ دلانےپر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےصحابہ کواپنےہاں جمع فرمایااوران کےسامنےیہ مسئلہ رکھا ۔تبادلہٴ خیال کےبعد طےپایاکہ اپنےسن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کوبنایاجائےاوراس کی ابتداء ماہ ِمحرم سے کی جائے کیونکہ ذو الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کامنصوبہ طےکرلیاگیا تھااوراس کےبعد جو چاند طلوع ہواوہ محرم کاتھا۔(فتح الباری ، ج 7 ، ص 268 ملخصاً )
لہٰذا ہجری سال کا آغاز ہمیں ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاددلا کر بتاتاہےکہ اسلام ایک بہت بڑی نعمت ہےاور یہ قربانی،فیاضی ،عزت انسانی کے تحفظ ، بنی نوع انسان کی آزادی ، اور انکے حقوق کی حفاظت کا دین ہے ۔یہ دین غموں اور پریشانیوں میں رونے پیٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ صبر واستقامت کے ساتھ جرأت وبسالت کی داستانیں رقم کرنے کا کہتا ہے ، اخوت وبھائی چارے کی تاریخ قائم کرتا ہے ، ایثار وقربانی کے انمٹ نقوش پیدا کرتا ہے ۔ ہمیں اس ماہ کی فضیلتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چاہئیں اور اس ماہ میں ہونے والی خرافات سےخود کو ، گھر والوں کو اور دوستوں کو بھی بچانا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور ہر قسم کی نافرمانی سےمحفوظ فرمائے، ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولت عظمیٰ سے نواز دے ۔
( آمین ثم آمین)
پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں