محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



تحفظ ناموسِ صحابہؓ بِل

قومی اسمبلی سے تحفظِ ناموسِ صحابہؓ بل پاس ہونا ایک طرف خوش آئند اور دوسری طرف لمحہ فکریہ بھی ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اصحابِ رسولﷺ کی ناموس کے تحفظ کا قانون 75سالوں بعد پاس ہونا ریاست پاکستان کے لیے شرم کا مقام بھی ہے کہ جو کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا، اس میں اس قدر تاخیر کیوں کر دی؟ بحرحال دیر آئے درست آئے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ عبدالاکبرچترالی صاحب نے بل پیش کیا اور ممبران اسمبلی نے حمایت کر دی، لیکن اس بل کے پیچھے چھپے بہت بڑے راز ہیں جو شاید آج اکثریت عوام نہیں جانتے۔ اس بل کو لانے کے لیے صحابہؓ کے دیوانوں کی 36سالہ جدوجہد ہے۔  اس مشن کے لیے جھنگ کی سرزمین سے اٹھنے والی حقنوازؒ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
 بیڑیوں ہتھکڑیوں سے حقنواز کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی، پابندسلاسل کیا گیا، بھوکا پیاسا رکھا گیا، بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 5سال تک ظلم و تشدد کرنے والے تھک گے، پر حقنوازؒ تھکا نہیں، رکا نہیں، ڈرا نہیں بالآخر اسی مشن کے لیے جان بھی نچھاور کر گیا۔
 اک اور پرعزم نوجوان آگے بڑھا، اس نے مشنِ حقنوازؒ کا الم سرنگو نہیں ہونے دیا، تحفظ ناموس صحابہؓ کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر آئینی و قانونی جدوجہد کرنے لگا، 1991میں اس نوجوان نے اسی جدوجہد میں اپنے آپ کو قربان کر ڈالا، آج بھی اسے دنیا ایثارالقاسمی کے نام سے جانتی ہے۔ دشمنان صحابہؓ نے سمجھا تھا ہم نے آواز بند کر دی، مگر نہیں یہ ان کی غلط فہمی تھی، حقنواز اور ایثار کے خون کے ہر ہر قطرے سے مشن حقنواز کے علمبردار اور ناموسِ صحابہؓ کے ایسے مجاہد پیدا ہوئے جنہوں نے دشمنان صحابہؓ کو علم اور دلیل کی دنیا میں ناکوں چنے چبوا کر زیر کر دیا۔ 
مشن حقنوازؒ کی تکمیل کے لیے دینی علوم اور تاریخ کا گہرا علم رکھنے والے علامہ ضیاءالرحمن فاروقی، گستاخ صحابہؓ کو ڈھنکے کی چوٹ پر للکارنے والے مولانا محمداعظم طارق، دلائل کی دنیا کے بادشاہ علامہ علی شیرحیدری شہید سمیت درجنوں علماءاکرام اور سینکڑوں کارکنان نے اپنی جانیں دے کر مشن حقنواز کا الم بلند رکھا۔ 
یہ بل اتنی آسانی سے پاس نہیں ہوا صاحب، اس بل کے پیچھے سینکڑوں علماء اور کارکنان کا لہو مقدس شامل ہے، اس بل کے پیچھے سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجڑنے کی داستان ہے، اس بل کے پیچھے سینکڑوں عورتوں کے سہاگ اجڑنے اور سینکڑوں بچوں کی یتیمی و لاچاری شامل ہے، اس بل کے پیچھے ان لوگوں کی قربانیاں بھی ہیں جو سالہا سال پابندوسلاسل رہے، ان لوگوں کی قربانیاں بھی ہیں جو جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گے، اور ان پر غداری اور دہشتگردی کے الزام لگ گے، انکے بیوی بچوں کی ذہنی اذیت اور ڈپریشن بھری زندگی کی قربانی بھی ہے صاحب۔
یہ وہی بل ہے جس کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اعظم طارقؒ نے 40سے زاہد گولیاں کھائیں۔ یہ وہی بل ہےجس کے لیے اورنگزیب فاروقی کے سر کی قیمت لگی۔ الغرض اس بل کے پیچھے قربانیوں کی اتنی بڑی لائن ہے جسے لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہ المیہ ضرور ہے کہ اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود بھی اگر وطن عزیز میں اصحاب رسولﷺ کی ناموس پر حملے ہونے کو جرم نہ سمجھا جائے، یا کسی مخصوص لابی کی منشاء پر اس قانون کے راستے کو روکنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ یہی بل مولانا اعظم طارق اسمبلی میں پیش کر چکے تھے، آج بھی وقت کا اشد تقاضا یہی ہے کہ اس بل کو سینٹ سے منظور کر کے قانون کا حصہ بنا دیا جائے۔
اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ یہ بل کسی مذہب کسی کمیونٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہے تو ایسا بالکل نہیں. بل کا مقصد ان شرپسندوں کو روکنا ہے جو اصحاب رسول کی گستاخی کرتے ہیں۔ اگر کسی کا عقیدہ ہے کہ وہ ابوبکرؓ، عمرؓ ، عثمانؓ،علیؓ، معاویہؓ کو نہیں مانتا تو وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے، غیر مسلم اللہ رسول اللہﷺ اور قرآن کو بھی نہیں مانتے، آج تک کسی نے زبردستی منوانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ بات بگڑتی اس وقت ہے جب اصحاب رسولﷺ کی گستاخی کی جاتی ہے، اور جہاں اکثریت اصحاب رسولﷺ کو اپنے ایمان کا جز مانتے ہوں وہاں مٹھی بھر عناصر ان مقدس شخصیات کی توہین کریں تو ردِ عمل آنا بنتا ہے۔

 سنیت کی شرافت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ اصحاب رسول کی توہین پر اکثریت ہونے کے باوجود قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے قانونی جنگ لڑتے رہے اور اسی کوشش میں جانیں تک لٹوا دیں مگر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ ریاست پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لازم ہے کہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے پیغمبرﷺ کے اصحابؓ کی توہین کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کسی اور کی ایسی جرت نہ ہو سکے، اور ملک حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن سکے۔

اس مشن کے ہر اک مسافر کو دل کی اتھاه گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ازقلم: محمداشرف 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]