محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]


گھر میں چوری چکاری کا ڈر ہو تو پستول خریدا جا سکتا ہے۔ تاکہ وقت پر کام آئے۔ اس کو قبل از وقت حفاظتی اقدام کہہ سکتے ہیں۔
مگر آپ اس پستول کو ہر گھر آنے والے مہمان پر تاننا نہیں کرنا شروع کر دیتے؟ اگر ایسا کریں گے تو لوگ آپ کے گھر آنا چھوڑ دیں گے۔

بالکل ایسے ہی حفاظتی اقدام کے طور پر ہم اپنی بیٹیوں کو فنانشیل انڈیپینڈنٹ بنانے لگے ہیں۔ مقصد یہی ہے کہ زندگی میں کسی۔موڑ پر اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ اس کو اپنے لیے خود کمانا پڑے تو مشکل نہ ہو۔ بغیر کسی محتاجی کے زندگی گزار سکے اور اگر باصلاحیت ہو تو اپنے شعبے یا شوق میں آگے بھی بڑھ سکے۔

مگر بیٹیاں اس خودمختاری کے پستول کو کاندھے پر ڈالے زندگی کے اہم ترین رشتے میں داخل ہوتی ہیں اور مخالف سمجھ کر اپنے سب سے قریبی رشتے یعنی شوہر پر تان لیتی ہیں۔
میں کوئی تمہاری غلام نہیں ہوں۔
میں انپڑھ گنوار نہیں کہ تمہاری ہر بات مانوں۔
میں پڑھی لکھی ہوں اسکی یہ جرات وہ مجھے ایسے کہے
میں خود اپنا کما کر کھا سکتی ہوں مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔

اس ذہنیت کے ساتھ رشتے شروع کرنے والیوں کے ستر فیصدی رشتے پہلے دو تین سال میں ختم ہو رہے ہیں۔
دنیا بھر میں انتہائی پسماندہ ملکوں سے مغرب کے جدید ترین ممالک میں میاں بیوی کا رشتہ اگر چلتا ہے تو باہمی مفاہمت پر۔ جیون ساتھی کی اچھائی برائی کو قبول کر کے۔ اسکی کمزوریوں کا مان رکھ کر اور اپنی طاقتوں کو اسکی طاقت بنا کر۔ جواباً دوسرا بھی آپکے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر آپکی کمزوریوں کو اپنی طاقت سے بدلتا ہے۔

سب سے بڑی غلط فہمی جو ہماری۔بچیوں کے ذہنوں میں ڈال دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس رشتے میں انحصار صرف روپے پیسے کا ہے۔ وہ اگر وہ خود کما لیتی ہیں تو باقی سب کی کیا ضرورت ہے۔
جبکہ درحقیقت اس رشتے میں آپ کے جسم و روح کے بدلے دوسرا بھی اپنے جسم۔و روح کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ آپکی بیشمار جسمانی، روحانی و نفسیاتی ضرورتوں کا انحصار اسکے وقت، توجہ، کوشش، اور آمادگی پر ہوتا ہے۔

اگر لڑکیاں صرف یہی سمجھ لیں کہ اس رشتے میں انکو بھی ایک جیتے جاگتے انسان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ انکے شوہر کو۔ تو شائد وہ بات بات پر خودمختاری والا پستول لہرانا بند کر دیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]