محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]




آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق آئین پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے کو زبردستی معطل یا منسوخ کرنا سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے ۔ آئین کی اس دفعہ میں نہ تو کوئی ابہام ہے اور نہ ہی کوئی کمی۔ خصوصی عدالت نے مشرف کے خلاف سنگین غداری کا جو فیصلہ سنایا، وہ آئین کی اسی دفعہ کے تحت تھا اور اس حوالے سے یہ فیصلہ ہر لحاظ سے آئینی، قانونی اور جائز ہے کیونکہ پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پاکستان معطل کرکے ایمرجنسی کا نفاذ کردیا تھا۔

اگر ملک چلانا ہے اور مہذب ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہے تو اپنے آئین کے مطابق چلنا ہوگا، تمام فیصلے اسی کی روشنی میں دینا ہوں گے اور انہیں قبول کرنا ہوگا۔ اگر آئین کی کوئی شق پسند نہیں تو اس میں ترمیم کریں، لیکن عدالتوں کو آئین کے تحت  ہی فیصٖلے کرنے دیں۔

یہ تو ہوگئی مشرف فیصلے پر تمہید۔ اب ذرا تفصیل کی طرف آجائیں۔

مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا۔ پہلی مرتبہ 12 اکتوبر 1999 کو جب نوازشریف کی حکومت برطرف کرکے ایمرجنسی نافذ کی گئی، دوسری مرتبہ 3نومبر  2007 کو جب ہدف عدلیہ تھی۔آج کا فیصلہ عمومی طور پر 2007 والے اقدام کے خلاف آیا کیونکہ 1999 کے اقدام کو آئینی تحفظ دیا جاچکا تھا جبکہ 2007 والے اقدام کو یہ تحفظ نہ مل سکا۔

1999 میں جب آئین معطل ہوا تو اس کی پہلی توثیق اس وقت کی عدلیہ نے کی جس میں افتخار چوہدری بھی شامل تھا اور اس نے دوسرے ججوں کے ساتھ پی سی او کے تحت حلف بھی اٹھایا۔
پھر اس کے بعد 2002 میں الیکشن ہوئے جن میں ق لیگ ، پی پی، ایم ایم اے اور ن لیگ کی جماعتیں منتخب ہوئیں۔ اب مرحلہ درپیش تھا کہ کسی طرح مشرف کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ اس کیلئے پی پی اور ن لیگ کی جماعتوں نے اپنی قیادت کی غیرمشروط واپسی کی شرط  رکھ دی جو مشرف کو منظور نہ تھی، چنانچہ مشرف نے ق لیگ، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے سے رابطہ کیا۔
ایم ایم اے کے پاس ساٹھ سے زاِئد قومی اسمبلی کی سیٹیں تھیں اور اس کے پاس مشرف کی حفاظتی کنجی بھی۔ چنانچہ قاضی حسین احمد اور فضل الرحمان نے ************* مشرف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور آئین میں 17 ویں ترمیم منظور کروا دی جس کے تحت مشرف کے تمام اقدامات کو نہ صرف آئینی تحفظ مل گیا، بلکہ اسے بغیر منتخب ہوئے محض پارلیمنٹ سے  اعتماد کا ووٹ لینے کی شرط پر اگلے پانچ سال کیلئے باوردی صدر بھی منتخب کروا دیا گیا۔

آج جماعت اسلامی اور جے یو آئی والے مشرف کے خلاف فیصلے پر خوش ہورہے ہیں، حالانکہ انہی دو ************* جماعتوں نے مشرف کو 17 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ دیا۔آج عدلیہ سول سپریمیسی کی چیمپئن بنی ہوئی ہے جبکہ اسی عدلیہ کی عظمی نے مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور اسکے 1999 کے اقدام کو جائز قرار دیا تھا۔

تحریک انصاف کی حکومت کا اس فیصلے پر مؤقف یہ تھا کہ سنگین غداری جیسا جرم اکیلے مشرف نے نہیں کیا تھا بلکہ اس عمل میں اس کے ساتھ شریک تمام لوگوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔ سب سے اہم کردار جسٹس ڈوگر کاتھا جسے مشرف نے 2007 میں ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس بنایا اور اس نے ایمرجنسی کی توثیق کی۔
دوسرا اہم کردار زاہد حامد کا تھا جو 2 نومبر 2007 کو مشرف کا وزیر قانون تھا اور اسی نے ایمرجنسی کے احکامات ڈرافٹ کئے تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی زاہد حامد ہے جسے بعد میں نوازشریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں وزیرقانون بنایا تھا اور ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم بھی اسی نے کروائی تھی۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اکیلے مشرف کو آپ سنگین غداری میں پھانسی سنائیں اور اس کی مدد کرنے والی عدلیہ اور مقننہ کو آپ چھوڑ دیں؟ جب آپ ادھورا انصاف کریں گے تو پھر آپ کے فیصلے کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، پھر یہ انصاف نہیں بلکہ ذاتی لڑائی تصور ہوگا اور اسی بنیاد پر آج کا فیصلہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ انصاف کے تقاضوں سے محروم بھی۔

مشرف نے آئین معطل کیا جسے آپ ٹیکنیکل غداری کہہ سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایسی سیاسی قیادت موجود ہے جس نے بھارت کے ساتھ سازباز کرکے پاکستان کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کی، جس نے ملک کا خزانہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کیا،  جس نے قومی ادارے تباہ و برباد کردیئے ۔ ۔ ۔  یہ اصل غداری ہے لیکن عدلیہ کا کردار دیکھیں کہ پہلے شریف برادران کو ضمانت دی، پھر ان کی کرپٹ بیٹی کو ضمانت دی، پھر زرداری کو ضمانت دی، پھر اس کی بہن کو ضمانت دی اور آج خورشید شاہ کو بھی ضمانت پر رہائی دے دی۔

جس طرح منافق کی نماز اور حج قبول نہیں ہوتی، اسی طرح منافق عدلیہ کے ایسے فیصلے بھی قبول نہیں ہوسکتے جو  یکطرفہ ہوں۔ 

خصوصی عدالت کے اس فیصلے کی دھجیاں خود اعلی عدلیہ ہی اڑا دے گی کیونکہ اگر ایسے فیصلے پر عمل شروع ہوا تو ان کے اپنے گھر کو بھی آگ لگ جائے گی!!!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]