محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

روزے سے متعلق آپ نے اکثر لوگوں سے سنا ہو گا، مجھے روزہ لگ گیا، فلاں کو روزہ لگ گیا وغیرہ وغیرہ۔

رمضان المبارک کے مہینے میں اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ہو جاتے ہیں، اور بعض دفعہ نوبت ہاتھا پائ تک بھی جا پہنچتی ہے۔ بعض لوگ اپنے گھروں میں بھی لڑائ جھگڑے کا ماحول بنا لیتے ہیں۔ لڑائ کی وجہ پوچھو تو بتایا جائے گا روزہ لگ گیا۔ سڑک پر کوئ گاڑی ڈرائیور غلط اوور اٹیک کر کے نکل جائے یا رش میں بائیک والا گھس کر نکلنے کی کوشش کرے تو اکثر ڈرائیور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔  مختصر یہ ہے ہر جگہ عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں لوگ زیادہ عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں۔


جس کی وجہ بھوک پیاس کی شدت شوگر کا لو ہونا بلڈ پریشر کا لو یا ہائ ہونا وغیرہ وغیرہ، ظاہر ہے کئ گھنٹوں کا روزہ ہوتا ہے اور کھانا پینا انسان کی بنیادی ضرورت ہے اگر نہیں ملے گا تو جسم اور دماغ پر اس کے اثرات تو مرتب ہونگے ہی۔ اصل ہمارا ٹاپک ہے روزہ لگتا ہے یا نہیں؟ یاد رہے بھوک پیاس کا نام روزہ نہیں ہے۔

روزہ اللہ تعالی کا حکم ہے اور اسلام کا تیسرا رکن ہے، جس کی فرضیت کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا!!!!


*یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ :۱۳۸)* 

ترجمعہ: ''اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔''


اس آیت کے ابتدائ حصے میں اللہ تعالی نے روزے کا حکم دیا اور پھر اگلے آخری حصے میں وجہ بیان فرمائی، کہ کیوں روزے فرض کیئے گے۔  (تاکہ تم متقی بن جاؤ) متقی کا اردو میں آسان معنی بنتا ہے (پرہیزگار)  اللہ تعالی فرماتے ہیں روزے تم پر اس لیے فرض کیئے گے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔


پرہیز کس چیز کی؟  یعنی ہر برائ سے بچنے کے عادی بن جاؤ حرام حلال کی پہچان کرنے والے بن جاؤ جن چیزوں سے اسلام منع کرتا ہے ان سے رک جاؤ جن چیزوں کی اسلام اجازت دیتا ہے ان کاموں کو کرنے والے بن جاؤ۔

روزے میں جہاں کھانا پینا جائز نہیں ٹھیک اسی طرح ہر برائ سے خود کو بچانے کو روزہ کہا جاتا ہے۔ جھوٹ، فراڈ، غیبت، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی سمیت ہر ناجائز کام سے پرہیز کرنے کو روزہ کہا جاتا ہے۔


ہمارے ہاں ہر برائ کرتے ہوئے صرف کھانے پینے سے پرہیز کو روزہ سمجھ کر اپنی کیفیت ایسی بنا لی جاتی ہے کہ جس سے روزے کا دور دور تک کا تعلق ہی نہیں ہوتا، روزے میں لڑائ جھگڑا غصہ کر کے کہا جاتا ہے روزہ لگ گیا۔ جبکہ حضور نبی کریمﷺ نے غصے کو حرام قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اپنا روزہ ثابت کرنے کے لیے غصہ کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کو روزہ نہیں کہا جاتا، ایسا ادھورا روزہ اپنے ساتھ بھی مذاق سے کم نہیں۔ 


پورا دن بھوکے پیاسے رہ کر لڑائ جھگڑے کر کے الزام روزے پہ عائد کر دینا کہ روزہ لگ گیا، روزہ نہیں لگتا، روزہ تو نام ہیں برداشت کا ہے پرہیز کا ہے، جب تمھاری نیت حقیقی روزے کی ہو تو پھر روزہ تمہیں لڑائ جھگڑے سے بچاتا ہے۔ تمہیں پرہیزگار بناتا ہے۔ لہذا یہ جملہ استعمال کرنا کہ روزہ لگ گیا، میرے خیال میں سراسر غلط ہے۔


محـــــمد اشــــرف

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]