محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]

ننھی فرشتہ کے قتل کا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئ پہلا واقعہ نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اسلام آباد سے 10سالہ معصوم پری اغواء ہوتی ہے اور پانچ روز بعد اس کی لاش ملتی ہے۔

مقتولہ کی لاش کی تصویر وائرل ہونے پر سوشل میڈیا پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے بعد الیکٹرانک میڈیا نے بھی ایک آدھ پٹی چلا دی، ہر طرف سے صدمے اور مذمت کی آوازیں بلند ہونے لگیں، ننھی فرشتہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس بےدردی سے قتل کیا گیا اس سے بڑھ کر قابل افسوس بات یہ ہے کہ مقتولہ کے ورثاء کو انصاف کے لیے معصوم بچی کی لاش کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنا پڑا، کیا اس احتجاج سے فرشتہ کے قاتلوں کو سزا ہو سکے گی یا نہیں؟ کیا انصاف کے لیے ہمیشہ احتجاج اور دھرنے ہی دیے جانے چاہیں؟  کیا فرشتہ کے قاتلوں کو سزا دینے سے اس طرح کے جرائم میں ملوث بھیڑیے نصیحت پکڑیں گے یا نہیں؟ کیا فرشتہ کی قربانی معصوم بچیوں کے تحفظ کا باعث بن پائے گی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ہر سانحہ کے بعد دماغ میں اترتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ایک نیا واقعہ پیش آ جاتا ہے، تمام تر امیدیں نئے سرے سے باندھنی پڑتی ہیں۔


خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ مقتولہ کے قاتل گرفتار کر لیئے گے ہیں، مگر دوسری طرف معصوم بچی کی لاش پر سیاست بھی شروع ہو چکی ہے، PTMکے لوگ سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد ڈال رہے ہیں جس سے پختون قوم میں یہ  تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست پختون قوم کے ساتھ جان بوجھ کر برا سلوک کر رہی ہے۔

ننھی بچی کی لاش کو PTM اپنے مفاد کے لیے بھی استعمال کر رہی ہے، جس سے سادہ لو لوگوں کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔

مگر سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے PTM کو موقع کون دے رہا ہے؟

جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ناروا سلوک رکھیں گے، تو ظاہر بات ہے متاثرہ خاندان نے ہر آنے والے سے اپنا دکھ شیئر کرنا ہے، چاہے وہ اس کا ہمدرد ہو یا نہ ہو۔


مقتولہ کے بھائ کے بقول فرشتہ کے اغواء کے بعد ایف آئ آر تک کٹوانے میں پولیس نے مدد نہیں کی، اور ایک پولیس افسر نے شکایت سن کر کہا، کسی کے ساتھ بھاگ گئ ہو گی۔

ایک معصوم بچی جس کی عمر ابھی صرف دس سال ہے، اس کے بارے میں ایک پولیس افسر بجائے متاثرہ خاندان کی مدد کے نازیبا الفاظ کہے، کہ جاؤ چھوڑو وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئ ہو گی، اس رویے کو کیا سمجھا جائے؟ کیا یہ PTMکو موقع دینے والی بات نہیں ہے۔

جس پولیس افسر نے یہ نازیبا بات کہی اس کی قسمت اچھی تھی کہ متاثرہ خاندان نے اس کی بات برداشت کر لی، ورنہ پٹھان قوم ماں بہن بیٹی کے بارے میں ایسی گفتگو کرنے والے کے منہ میں دانت ایک نہیں چھوڑتی۔ 


جب ایک غریب خاندان کی بچی اغواء ہو غریبوں کے ٹیکس پہ پلنے والے پولیس اہلکار مقدمہ تک درج نہ کریں الٹا معصوم بچی کے کردار پر کیچڑ اچھالیں تو کہاں تک صبر ہو گا۔ یہی وہ رویہ ہے جو ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت پر اکساتا ہے۔ شہریوں کی جان مال عزت آبرو کا تحفظ ریاست کا فرض بنتا ہے، حق تو یہ ہے اس طرح کی خبر ملنے کے ساتھ ہی ریاست بھرپور ایکشن لے اور پوری طاقت استعمال کر کے فوراً مجرموں کو پکڑ کر سزا دلوائے، مگر افسوس صد افسوس اقتدار پر قابض ہونے کے بعد مذمت کے علاوے حکومتیں بھی بے بسی کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔


قصور کے بچوں سے زیادتی سے لے کر ننھی فرشتہ کے قتل تک کتنے واقعات پیش آ چکے مجال ہے مذمت سے بات آگے بڑی ہو، حکمرانوں کی بےحسی اپنی جگہ مگر عوام کا اپنے ساتھ جو رویہ ہے اس پر بھی ماتم بنتا ہے۔

ایک طرف پی ٹی ایم کی سازش جو پختون قوم کے نام پر فساد پھیلانے کے لیے ہمیشہ سے لاشوں کا موقع تلاش کرتی ہے، تو دوسری طرف وہ عقل سے فارغ لوگ جو سوشل میڈیا پر یہ کہتے پھر رہے ہیں فرشتہ کا خاندان افغانی تھا اور قاتل بھی افغانی تھا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) فرشتہ کا خاندان افغانی ہو بھارتی ہو یا کیوں نہ اسرائیلی ہو، فرشتہ مسلم گھرانے کی تھی اگر غیرمسلم ہوتی تب بھی یہ بہت بڑا ظلم تھا، ہمیں قومیت یا مذہب مسلک سے کوئ لینا دینا نہیں وہ ایک انسان تھی اس پر بدترین ظلم ہوا، اس کے خاندان کو انصاف ملنا چاہیے


معصوم پری فرشتہ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے پولیس افسر کو بھی برطرف کرنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو کوئ حق حاصل نہیں کہ وہ محافظوں کے روپ میں لوگوں کی توہین و تذلیل کرتے رہیں۔

اس سلسلے کو اب رک جانا چاہیے، بچوں کے تحفظ کے لیے حکومت کو فوری پلان بنانا چاہیے، جس سے مجرموں کو عبرت ناک سزا ملے، اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ الیکٹرانک میڈیا جو بیڈ پر لیٹے یورپ کے کتوں کی خبریں بھی سناتے ہیں، انہیں چاہیے مظلوم لوگوں کی آواز بنیں ورنہ اللہ کے سامنے جواب دینے کے لیے تیار رہیں۔

اور عام عوام کو بھی چاہیے اپنے بچوں کی سخت نگرانی رکھیں اکیلے میں باہر چھوڑنا بازار بھیجنا، اجنبیوں سے گفتگو میل جول سے نہ روکنا بدترین مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے قریبی رشتے داروں پر بھی کڑی نظر رکھیں ریپ اور قتل کے کیسز میں اب تک قریبی لوگ ملوث پائے گے ہیں۔

ریاست کو فوری ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے عوام کی جان مال کا تحفظ یقینی بنے بصورت دیگر دشمن تحریکیں خوب فائدہ اٹھائیں گی جس سے ملک و ملت کی بربادی ہی ہو گی۔

ہم رحم کے قابل تو نہیں پھر بھی دعا ہے اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔


مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]