محمد اشرف راولپنڈی پاکستان

Full width home advertisement

Post Page Advertisement [Top]



سائرہ بی بی گل بابا کی سب سے بڑی اور لاڈلی بیٹی تھی، گل بابا نے اپنی انتہائ غربت کے باوجود بھی سائرہ بی بی کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی، سائرہ بی بی کے دو بھائ اور دو بہنیں اس سے چھوٹے تھے۔ سائرہ بی بی کی والدہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھی۔ گل بابا نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود اپنی بیوی کے علاج میں کوئ کسر نہ چھوڑی تھی قرض لے کر بھی ہرممکن علاج کی کوشش کی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ اپنی بیوی کی زندگی نہ بچا سکا۔

والدہ کی وفات کے بعد گھر کی تمام تر ذمہ داریاں سائرہ کے کندھوں پر سوار ہو گئیں۔ گل بابا کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف انہیں قرض والوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا تو دوسری طرف گھر میں موجود جوان بیٹی کی بڑھتی عمر نے غم بڑھا دیے۔ گل بابا دن کو محنت مزدوری کرتے اور رات کو بستر پر لیٹ کر اپنے غموں سے چور چور سوچتے رہتے، انہی سوچوں نے گل بابا کو بلڈپریشر کا مریض بنا دیا۔ قرض والوں کے پیغامات بھی آنا شروع ہو گے گل بابا جیتے جی مر چکے تھے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیسے قرض اتارا جاۓ،چونکہ ان کی آمدنی سے بمشکل گھر کا خرچہ چل رہا تھا، بالآخر اپنے بچوں کے سر کا سہارا واحد مکان جو کچا چھت تھا، کو بیچ کر قرض والوں کا منہ بند کیا اور خود شہر کا رخ کر لیا۔ شہر میں کراۓ پر ایک بیٹھک لی اور اس میں بچوں کو چھوڑ کر دن بھر محنت مزدوری کرتا اور رات کو آرام کی غرض سے بستر پر لیٹتا تو بجاۓ نیند کے نئی سوچیں گہیر لیتی اگر میں مر جاؤں تو میرے بچوں کا کیا ہو گا؟ پہلے تو اپنا مکان تھا جو کم از کم بچوں کا سہارا تو تھا اب کہاں جائیں گے بچے؟

دوسری طرف گل بابا کو بیٹی کی بڑھتی عمر نے پریشان کر رکھا تھا، گل بابا نے پڑوس میں رہنے والے ایک بزرگ سے ڈسکس کی تو اس نے حامی بھر دی کہ آپکی بیٹی ہماری بیٹی ہم آپ کی بیٹی کی شادی کروائیں گے۔

ان بزرگوں نے بالآخر سائرہ کے لیے لڑکا تلاش کر لیا مگر لڑکے کے والدین نے گل بابا کی غربت کو دیکھ کر رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بڑی منت سماجت کے بعد وہ اس بات پر راضی ہوۓ کہ آپ ہمیں ہر حال میں جہیز دینگے۔ بیٹی کی زندگی کے مستقبل کا سوال تھا گل بابا نے نہ چاہتے ہوۓ بھی حامی بھر لی۔

آج بیٹی کا رشتہ طے پانے کی خوشی کے بجاۓ گل بابا کی پریشانیوں کا ایک اور باب کھل چکا تھا۔ گل بابا نے پھر سے قرض لینے کی کوشش کی بڑی مشکل سے کچھ روپیہ پیسہ جمع کر کے بیٹی کے لیے کچھ جہیز خریدا لڑکے والوں کی طرف سے شادی کی تاریخ طے ہوئ گل بابا نے بھر پور کوشش کی کہ دماد جی کے گھر سے کی گئی فرمائش کے مطابق پورا جہیز خریدا جاۓ مگر یہ کوشش ناکام رہی شادی کے روز گل بابا نے جب جہیز دکھایا تو لڑکے کے خاندان والے آگ بگولہ ہو گے۔ کہ ہم نے تو پہلے کہا تھا تم جہیز نہیں دے سکو گے اور یہ دیکھو اپنا سڑیل کباڑ جہیز اور اس میں ہماری بتائ گئی چیزیں پوری بھی نہیں، گل بابا ان کے پاؤں پڑے اور منت سماجت کی کہ باقی کا جہیز بھی میں بعد میں پورا کر دوں گا آپ یہ ظلم نہ کیجیئے آج میری بیٹی کی شادی نہ رک پاۓ۔

خیر آج سائرہ گل بابا کی غریب کراۓ کی بیٹھک سے نکل کر سسرال کے گھر میں داخل ہو چکی تھی۔ گل بابا نے بھی سوچا اپنی تو جیسی تیسی گزر رہی ہے کم از کم بیٹی کی زندگی تو سکھ سے گزر جاۓ گی۔ مگر گل بابا یہ کہاں جانتے تھے کہ غریب کی بچی کے لیے سسرال میں سکھ بھی کہیں قسمت سے ہی ملتا ہے۔

سائرہ کو سسرال میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر طعنے ملتے اور اس کے باپ کی غربت کا بدترین مذاق اڑایا جاتا، ایک بیٹی کے سامنے اس کے باپ کا اس قدر مذاق اڑانا بھی قابل برداشت تو نہ ہوتا مگر کرتی بھی تو کیا کر سکتی تھی صبر ہی کیا جا سکتا تھا۔ ادھر گل بابا سے قرض کی واپسی کا مطالبہ پھر سے شروع ہوا وہ قرض جس سے بیٹی کی شادی کے لیے جہیز خریدا تھا۔ بلکہ وہ قرض جس سے داماد جی کے سونے اور بیٹھنے کے لیے فرنیچر خریدا تھا۔ 

گل بابا کے سامنے اب کوئ راستہ نہیں تھا گل بابا کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے چھوٹے بھی تھے گل بابا کو قرض کے چکانے کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے بچوں کے مستقبل کی فکرنے دبوچ رکھا تھا۔ گل بابا اپنی قسمت پر سوچ کر سواۓ آنسوؤں کے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ سائرہ کے گھر والوں کا رویہ بھی آۓ روز سخت ترین ہوتا چلا گیا۔ گل بابا انتہائ پریشانی کے عالم میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گے۔ باپ کی موت کی خبر سائرہ پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑی آج سائرہ کو باپ کے مرنے کے غم سے زیادہ یہ فکر تھی اس کے بہن بھائیوں کا کیا ہو گا؟ گل بابا کی تدفین کے بعد سائرہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ لے کر جاۓ گی۔ 

سائرہ کے سسرال والوں نے سائرہ کے بہن بھائیوں کی کفالت سے انکار کر دیا منت سماجت کے بعد یہ طے پایا کہ سائرہ کے بہن بھائ گھر کا سارا کام کاج کریں گے۔ یونہی دو سال کا عرصہ مزید بیت گیا، سائرہ کے شوہر کو کسی اور لڑکی سے پیار ہو گیا اور اس نے دوسری شادی کر لی۔ سائرہ کی گود میں اس کی ایک ننھی بیٹی بھی تھی، اب سائرہ کی اس گھر میں حثیت ایک نوکرانی جتنی بھی نہیں رہی تھی سسرال والوں نے لڑائ جھگڑے سے ایک قدم آگے نکل کر مار پٹائ بھی شروع کر دی تھی۔

کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلا اور پھر نوبت طلاق تک پہنچ گئ۔ سائرہ اپنی معصوم بیٹی اور بہن بھائیوں سمیت کسی سہارے کی تلاش میں نکل پڑی۔ کئ لوگوں کو فریاد سنائ بالآخر ایک شخص نے ترس کھاتے ہوۓ اپنے مکان کا ایک کمرہ ان بے سہارا بچوں کے حوالے کر دیا۔ سائرہ گھروں میں کام کرتی اور اپنے بہن بھائیوں کی پرورش کرتی سائرہ نے اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔

وہ چاہتی تھی کہ میرے بھائ تعلیم حاصل کر کے اپنا مستقبل سنوار سکیں۔

سلسلہ یونہی چلتا رہا اس علاقے کے کچھ اوباش درندوں کی نظریں پڑ گئیں کہ اس محلے میں بےسہارا لڑکیاں رہتی ہیں انہوں نے اپنا جال بچھانا شروع کر دیا ہر طرح کی ناکامی کے بعد ان اوباشوں نے سائرہ اور اس کی بہنوں پر جھوٹی ایف آئ آر درج کروا دی کہ یہ لڑکیاں اس محلے میں فحاشی پھیلاتی ہیں یہاں زنا کا اڈہ کھول رکھا ہے۔ پولیس لڑکیوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور جیل منتقل کر دیتی ہے۔ سائرہ کے چھوٹے بھائ سکول سے واپس آتے ہیں تو مکان کے اس کمرےپر تالا پایا جاتا ہے جہاں وہ رہتے تھے مالک مکان بتاتا ہے تمھاری بہنوں کو پولیس لے گئی ہے۔ یہ دونوں لڑکے غم سے نڈھال بہنوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں کبھی کسی فٹ باتھ پر رات گزرتی ہے تو کبھی کسی کے ٹوٹے پھوٹے مکان میں کبھی کچرے کے ڈبوں سے بھوک مٹانے کو غذا ملتی ہے تو کبھی کسی ہوٹل والے سے مانگ کر کھا لیتے ہیں۔

کئ بار ورکشاپ میں تو کئ بار کسی ہوٹل پر کام کر کے روٹی کے چار نوالے نصیب ہوتے ہیں۔ کئ ہوس کے پجاریوں کی ہوس کا نشانہ بنتے ہوۓ در در بھٹکتے ہیں۔ سائرہ دو بہنوں اور معصوم بیٹی کے ساتھ جیل میں قید کاٹ رہی ہوتی ہے۔ جی ہاں اس معصوم بیٹی کے ساتھ جس نے اب تک بولنا تک نہیں سیکھا، سائرہ اور اس کی بہنوں کو یہ تک معلوم نہیں کس جرم کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے بند ہیں اور نہ جانے کبھی یہاں سے رہائ ملے گی بھی یا اسی حالت میں موت کے فرشتے نے آکر جان نکال دینی ہے۔

ہر روز کوئ وی آئ پی کار والا صاحب سائرہ کی کنواری بہنوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لے جاتا اور دوسرے روز واپس جیل پہنچا دیا جاتا۔

سائرہ یہ سوچ سوچ کر نڈھال ہو جاتی ہے کہ انسان نام کی چیز میں انسانیت کیوں نہیں سائرہ کو اپنی فکر سے زیادہ اپنے ان بھائیوں کی فکر کھاۓ جا رہی تھی جن کا اسے یہ تک نہیں پتہ تھا کہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

سائرہ اپنی گود میں معصوم بیٹی کو کھیلتے مسکراتے دیکھ کر خون کے آنسو روتی کہ اس کا کیا بنے گا؟ یہی غم سائرہ کی زندگی کو کھا جاتے ہیں اور وہ اپنی ننھی سی بچی کو تنہا چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر جاتی ہے۔ سائرہ کے بھائ نشے میں ایسے لت پت ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی ہوش تک بھول جاتی ہے۔

سائرہ کی میت کو لاوارث قبرستان میں دفنا دیا جاتا ہے۔

سائرہ کی ننھی پری جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی دو خالاؤں کی گود میں پرورش پانے لگتی ہے۔

مزید اچھی اور معلوماتی تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کر کے صفحہ اول پر جائیں۔

پوسٹ کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کریں اور اگر پسند آۓ تو فیس بک، ٹویٹر،واٹس ایپ، گوگل پر شیئر کریں، پوسٹ کا لنک کاپی کر کے اپنے تمام سوشل اکاؤنٹس پر ڈالیں، شکریہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Bottom Ad [Post Page]